میڈیکل سائنس اتنی ایڈوانس تھی، نہ میڈیکل ٹیسٹ لیبارٹریز اور نہ ہی سرجری کے کرشمے مگر حکمت میں ون مین شو کے ناقابل یقین کرشمے تھے جو تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن گئے۔ ان میں سے چند قارئین کی نذر ہیں۔
’’شریف منزل‘‘ کے حکیم بھورے خان راوی ہیں کہ دلی سے چالیس میل دور میرٹھ میں ان کے دوست تھے جن کے ساتھ وہ شکار کھیلے جایا کرتے تھے۔ ایک دن وہ اپنے ان دوست کے گھر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سب لوگ پریشان ہیں اور دلی کے بڑے بڑے ڈاکٹر اور انگریز سول سرجن میرٹھ میں براجمان ہیں۔ ان صاحب کے لڑکوں نے حکیم بھورے خان صاحب کو بتایا کہ ہمارے والد کی تو ٹانگ کٹنے والی ہے۔ سول سرجن کہتا ہے کہ اگر فوراً جڑ سے ٹانگ نہ کاٹی گئی تو سارے جسم میں زہر باد پھیل جائے گا۔ اور پھر کوئی انہیں مرنے سے بچا نہیں سکے گا۔ حکیم بھورے خاں صاحب نے فرمایا لیکن ہم تو شام کو ان کے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر شکار کھیلنے کا منصوبہ بنا کر دلی سے میرٹھ آئے ہیں اور پھر سول سرجن کو بلوا کر یہ پوچھا کہ کیا ٹانگ کٹنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ جب سب ڈاکٹروں نے یک زبان ہو کر یہ فیصلہ سنایا کہ ’’نہیں ہے‘‘ تو حکیم صاحب نے کہا کہ اچھا آپ صرف ہمیں یہ بتا دیجیے کہ کہاں سے اور کس طرح آپ ٹانگ کاٹیں گے۔ جب انگلی کے اشارے سے سول سرجن نے شگاف کی شکل بنائی تو حکیم صاحب نے کہا کہ روئی کی بتی بٹ کر لاؤ اور چیرا لگنے کا جو نشان انگلی کے اشارے سے اس انگریز ڈاکٹر نے بتایا ہے وہاں روئی کی بٹی ہوئی بتیاں رکھ دو اور برف کی ایک سلی منگوا کر ان روئی کی بٹیوں پر برف کی ٹکور کرو۔ حکیم بھورے خاں صاحب نے ان روئی کی بتیوں پر کوئی دوا بُرکی اور ایک کپڑا ان پر ڈھانک کر اور برف کی ٹکور شروع کرا کر آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے اور کہا دو گھنٹے بعد جب دو پہر ڈھل جائے تو ہمیں جگا لینا۔ دو گھنٹے بعد جب ٹکور کرتے کرتے برف کی سلی ختم ہونے کے قریب ہوئی تو حکیم صاحب کو جگایا گیا۔ انہوں نے اٹھتے ہی فرمایا ان ڈاکٹروں کو بلاؤ جو ٹانگ کاٹنے کو کہتے تھے اور جب سب ڈاکٹر جمع ہو گئے تو حکیم صاحب نے کہا کہ اب ان روئی کی بتیوں پر سے کپڑا ہٹا دو۔ سب نے دیکھا کہ قندھاری انار کی طرح کی کوئی چیز ران پر ابھر آئی ہے جیسے کھلا ہوا انار، اور روئی کی بتیاں گوشت پھاڑ کر اندر بیٹھ گئی ہیں۔ پھر کہا کہ اب کسی جراح کو بلاؤ۔ جراح سے کہا گیا کہ اس ران پر ابھرے ہوئے انار کو زور سے دباؤ اب جو اس جگہ کو جراح نے دونوں ہاتھوں سے دبایا تو شدید متعفن سیاہی مائل سبز گٹھلیاں سی نکلیں اتنی کہ تسلہ بھر گیا اور مریض نے آنکھیں کھول دیں جو تین دن سے بے ہوش پڑا تھا۔ حکیم صاحب نے اسی جراح سے کہا کہ اب اگر تمہارے پاس کوئی زخم پر لگانے کا مرہم ہو تو اس زخم میں بھر دو اور پٹی کر دو۔ مریض سے کہا کہ لو میاں کھڑے ہو جاؤ اور ان ڈاکٹروں کو چل کر دکھاؤ جو تمہاری ٹانگ کاٹنے کو پھر رہے تھے اور مرہم پٹی کرا کے چلو ہمارے ساتھ گھوڑے پر بیٹھ کر شکار کو۔ ڈاکٹروں نے جب پوچھا کہ کیا دوا تھی جو آپ نے روئی کی بتیوں پر برف کی ٹکور سے پہلے ڈالی تھی تو حکیم صاحب نے کہا، یہ کھانے کا کشتہ تھا جس نے ساری ٹانگ کی پیپ کھینچ کر ایک جگہ جمع کر دی اور برف نے اس پیپ کو جما دیا۔ ایک اور راوی انہی حکیم بھورے خان صاحب کا واقعہ سناتے ہیں کہ شاہی خاندان کی کوئی میم اپنے شوہر کے ساتھ ان کے مطب میں اپنے دائمی نزلے کے علاج کے لیے پہنچی، اس شاہی خاندان کی انگریز عورت کے ناک سے مستقل ریزش بہے جاتی تھی۔ حکیم صاحب نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ کل آنا۔ اس میم کے جانے کے بعد ایک پتلے سے سرکنڈے میں ایک تار کا آنکڑا بنا کر پرویا اور رکھ لیا۔ دوسرے دن جب وہ میم آئی تو حکیم صاحب نے وہ آنکڑے والا سرکنڈے کا سرا اس انگریز عورت کی ناک میں ڈالا اور کئی بل دے کر باہر کھینچ لیا اور دیکھا کہ اس تار کے آنکڑے میں ایک گھوڑے کی دم کا سخت بال کوئی چار انگل لمبا لپٹا ہوا ہے اور انگریز جوڑے سے کہا کہ بس اب جاؤ ہو گیا علاج اور فوراً اس عورت کی ناک اور منہ سے ریزش بہنا بند ہو گئی۔
حکیم اجمل خاں صاحب ’’شریف منزل‘‘ سے ایک دفعہ باہر نکلے تھے کہ کیا دیکھا کہ ہندوؤں کی ایک برات چلی آتی ہے۔ حکیم صاحب برات کے جلوس کے نکل جانے کے انتظار میں رک گئے اور ان کے ساتھ ان کے مصاحب بھی۔ جب دلہا کا گھوڑا حکیم صاحب کے سامنے سے گزرا تو حکیم صاحب کی بھی نظر دلہا پر پڑی۔ فرمایا دلہا نہیں دلہا کی ارتھی جا رہی ہے۔ پتہ نہیں کس کا سہاگ اجڑا ہے۔ ’’شریف منزل‘‘ سے تھوڑے فاصلے پر دلہن والوں کا گھر تھا۔ جب دلہا وہاں پہنچا اور وہاں گھوڑے سے دلہن والوں نے دلہا کو اتروایا تو گھوڑے سے اترنے کے بجائے دھڑ سے زمین پر گر پڑا۔ سب کو حیرت ہوئی کہ یہ دلہا مرا کیسے۔ حکیم صاحب کے مصاحبوں نے جو اس وقت ساتھ تھے، جب حکیم اجمل خاں صاحب سے پوچھا کہ حضور آپ نے یہ کیسے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ دلہا نہیں دلہا کی لاش گھوڑے پر جا رہی ہے؟ تو حکیم صاحب نے فرمایا: آپ لوگوں نے شاید غور نہیں کیا کہ دلہا کے ماتھے پر سیندور کا ٹیکہ گیلا تھا۔ حالانکہ نیل کے کٹڑے سے جہاں کی یہ برات تھی بلی ماراں تک آتے آتے اس کا ماتھے کا سیندور خشک ہو جانا چاہئے تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے جسم کا سارا خون ست گیا تھا اور جب جسم میں خون ہی نہ رہے تو زندگی کے کیا معنی۔
یہ تب کی باتیں ہیں جب طبیب مریض کے حالات اور حیثیت سے بھی تشخیص کر لیا کرتے تھے مگر آج لیبارٹریز سے میڈیکل ٹیسٹ، پانچ ہزار فیس اور ڈاکٹر پھر بھی پانچ منٹ وقت نہیں دیتے۔
تبصرے بند ہیں.