دنیا نے کروٹ بدلی اور ٹرمپ دوبارہ گلوبل چوہدری بن کر امریکی صدارت کے لیے منتخب ہو گئے۔ سب کی نگاہیں سوئے ٹرمپ ہیں۔ دنیا میں قحط الرجال کا پیمانہ بھی یہی ہے! سفید فام برتری کے جوشیلے ٹرمپ کے دیوانے اسکی ہار پر 6 جنوری 2021 ء کو وائٹ ہاؤس پہ چڑھ دوڑے ، جسے FBI نے دہشت گردی کا نام دیا ۔ 140 پولیس افسر زخمی ہوئے ۔ ٹرمپ نے واشنگٹن ڈی سی میں اپنے جیالوں کو حملے سے پہلے کہا تھا: پوری شدت سے لڑو (Fight Like Hell )! تاہم اب انتخابات میں، 6 جنوری کو’ محبت کا دن ‘ قرار دیا کہ اس دن کچھ بھی غلط نہ ہوا تھا۔ ٹرمپ نے جیا لے بھیجتے ہوئے یہ بھی کہا تھا، وہاں پہنچو اور پھر جنگلی ؍سرکش ہو جانا۔( CBS : 17 اکتوبر 2024ئ) صدارت نے تمام پچھلے گناہوں سے ٹرمپ کو پاک کر دیا، خواہ وہ شرمناک سیرت و کردار کی داغداری کے مقدمات ہوں۔
بر صغیر میں فوری ردِ عمل تو یہ ہوا کہ بنگلہ دیش پر ظلم و جبر کی حکمرانی کے خلاف قوم کے شدیدرد عمل کے خوف سے نکل بھاگنے والی حسینہ واجد نے ٹرمپ کی آمد پر امیدیں باندھ لیں۔ عوامی لیگ کے کارکنان کو بھارت میں اپنی پناہ گاہ سے پیغام بھیجا کہ وہ (9 نومبر )ڈھاکہ میں اہم مقامات پر امریکی جھنڈے اور ٹرمپ کی تصاویر اٹھا کر مظاہرے کریں عبوری حکومت کے خلاف۔ خفیہ تیاریاں جاری تھیں، مگر حکومت کو خبر ہو گئی اورتیاریاں اوندھی ہو گئیں! بنگلہ دیش پرامریکی جھنڈے لہرانے کے خو اب پورے نہ ہو سکے۔ حسینہ واجد کا حوصلہ یوں بھی بڑھا تھا کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے (امریکہ میں بڑی تعداد ہندو ووٹروں کی ہے) ووٹ لینے کے لیے بنگلہ دیش پر تنقید کی کہ ہندوؤں پر ظلم ہو رہا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں پر ظلم کے خلاف ایک لفظ نہ کہا!
اِدھر پاکستان میں پی ٹی آئی، ٹرمپ سے امیدیں باندھے بیٹھی ہے۔جیل سے خان صاحب نے ٹرمپ کو مبارکباد بھیجی۔صوابی میں 10 نومبر کو پی ٹی آئی نے بہت بڑا امریکی جھنڈا لہراتے ہوئے جلسہ کیا۔ تنقید ہوئی تو حسب سابق یوٹرن پالیسی موجود تھی۔ بیرسٹر سیف نے اسے وفاقی حکومت کی سازش قرار دیا! گنڈا پور نے اظہار برأت کر دیا! آزاد پاکستان میں امریکی جھنڈا لہرانا؟ کیا یہ آزادی اور پاکستانی جھنڈے کی تو ہین نہیں؟ یوں بھی: منحصر ٹرمپ پہ ہو جس کی امید، نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے۔ کیا امریکہ ہمارا خیر خواہ ہے؟ مسلم دنیا کے لیے امریکی کردار کیا ڈھکا چھپا ہے؟ خلیج جنگ سے لے کر افغانستان، عراق، شام، یمن، لیبیا…مشرقِ وسطیٰ میں کردار، قطع نظر اس سے کہ صدارت پر گدھا ہو یا ہاتھی! (انتخابی نشان) ۔بائیڈن کا ایک سال غزہ پر قیامت بن کر ٹوٹا۔ اسرائیل، امریکی ویٹو، اسلحے، بھر پور معاشی، سیاسی، بین الاقوامی سطح پر امریکہ کامرہونِ منت ہے۔ کیونکہ ہم نظریاتی اعتبار سے کھوکھلے ہو چکے ہیں اور سیاست جھوٹ (کی مجبوری) سے آلودہ ہے، اس لیے حقائق بھلا دینے ضروری ہوتے ہیں ورنہ زندگی مشکل ہو جاتی ہے۔ ٹرمپ دوبارہ آرہا ہے اس لیے پچھلا دورِ صدارت تازہ کر لینا اہم ہے۔ بائیڈن، کمالا کم نہ تھے، مگر ٹرمپ نے ڈٹ کر جس طرح آج کے مضبوط، بے لحاظ، بے خوف اسرائیل کی بنیادرکھی، وہ اہم ہے۔ مسلم دنیا جو جامِ بے حسی پیے سو رہی ہے ، قدس کے چہار جانب شعلے لپک رہے ہیں اورمسلم لاشوں کے ڈھیر لگے ہیں، وہ ٹرمپ کے ہاتھوں پیا۔
ٹرمپ کے پچھلے دورِ صدارت میں یہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ صدر بنتے ہی پہلا بیرون ملک دورہ سعودی عرب کا کیا گیا۔ گلوبل چوہدری کا پہلا ہدف مسلم دنیا سے خطاب تھا۔ چنانچہ 50 مسلم ممالک کے حکمران ارضِ حرمین پر ٹرمپ سے فدویت بارے رہنمائی لینے پہنچے۔ اس کا عنوان ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ تھا۔ (کیا پورا غزہ، عورتیں، بچے قتل، ہسپتال، تعلیمی ادارے تباہ، مسلط کردہ قحط، بھوک، افلاس، موت، ادھیڑے قبرستان، لاشوں کی بے حرمتی پر بھی اب یہی کا نفرنس نئے دورِ صدارت کے آغاز پر ہوگی؟) یادر ہے کہ اس دورے میں سعودی دولت کے سارے دہانے امریکہ کے لیے یوں کھل گئے تھے کہ بھاری بھر کم اسلحے اور معاشی معاہدات نے ٹرمپ کو مالا مال کر دیا۔ اس کی خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی ۔ کہنے لگا امریکیوں کے لیے نوکریاں ہی نوکریاں، روزگار کے بھر پور مواقع۔ اسلحے کی غیر معمولی بھاری ڈیل سعودی عرب کو اتحادی بنا کر اپنا اسلحہ امریکہ نے وہاں ڈال کر گودام بھر دیے اور امریکی خزانہ ڈالروں سے۔ سعودی عرب سے جگری تعلقات کی استواری ٹرمپ کے یہودی داماد کشنر نے کی۔ یہ اسلحہ یمن کے خلاف کام آیا۔ نیز امریکہ شام میں بڑی جنگ (الملحمۃ الکبریٰ، ان کی آرمیگڈون ،ہرمجدون) کی تیاری پچھلی صدی سے کر رہا ہے۔ غزہ اس پر مزید گواہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ملک، ملک کو اسلحہ بیچ کر بھی مسلم دنیا کے تحفظ کا ایک گولی سے بھی اہتمام نہ ہوا۔ غزہ (بالخصوص شمالی) صفحۂ ہستی سے مٹایا جا رہا ہے، ہم فدوی منہ موڑے بیٹھے ہیں۔ ٹرمپ اس کامیابی کو سمیٹ کر خبروں کے مطابق اپنے دوست نیتن یاہو سے ملنے چلا گیا تھا (مئی 2017ئ)۔ اسی کی محنتوں کا ثمر یہ تھاکہ اسرائیل نے معاہدات سے بالا بالا تل ابیب کو چھوڑ کر ٹرمپ کی پشت پناہی سے یروشلم (القدس) کو اپنا دار الحکومت بنالیا۔ یوم نکبتہ کی مناسبت سے 14 مئی 2018 ء کو امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کر کے ایک بڑی تقریب یہودی مذہبیت میں ڈوبی ہوئی وہاں منائی گئی۔ تاہم دہشت گردی کی جنگ کے دھوم دھڑکے پر لینے کے دینے یوں پڑ گئے کہ افغان دلدل میں پھنسے ہاتھی کو نکالنے کے لیے ٹرمپ کو مذاکرات کرنے پڑے دہشت گردوں کے ساتھ، دو حہ میں۔ ہارے ہوئے لشکر کو نکالنے کے لیے بائیڈن نیا صدرتھا، سو یہ نا خوشگوار فریضہ اس نے انجام دیا۔نئی قتل گاہ فلسطین بنا دی گئی۔
اسرائیل غزہ میں 85 ہزار ٹن کے بم گرا چکا ہے جو جنگ عظیم دوئم سے بھی زیادہ ہے۔ البتہ اعداد و شمار کا شعبدہ یہ ہے کہ وہاں اتنی بمباری میں 7 تا 8.5 کروڑ مارے گئے۔ یہاں صرف 43 ہزار چھ سو فلسطینی! جھوٹ کھل گیا؟ یہاں نہایت گنجان آبادی ہے بلا اوٹ! مغربی میڈیا کے سب جھوٹ مسلسل ثابت ہو رہے ہیں۔ مثلاً ایک خبر 9 نومبر کو پھیلا دی گئی: ’قطر حماس کا سیاسی دفتر بند کر رہا ہے۔ قطر امریکی دباؤ پر پیچھے ہٹ رہا ہے، مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے پر ثالثی سے انکاری ہے‘۔ اب ورلڈ میڈیا، بڑے معتبر اخبارات، نیوز ایجنسیاں خبر لے اڑیں۔ انہی سے ہم جیسے ممالک میں بھی شہ سرخیاں لگ گئیں۔ ’حماس کو نکال دیا!‘ ہم دل پکڑ کر بیٹھ گئے کہ قطر؟ یہ امید تو نہ تھی! 10 نومبر کو قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر مجید بن محمد الانصاری نے ان خبروں کی پُرزور تردید کی۔ (یہ جھوٹی خبر اصلاً اسرائیل کے مقامی عبرانی اخبار نے لگا دی قصداً ۔وہاں سے مغربی میڈیا نے لپک کر دنیا میں پھیلا دی بلا تصدیق!) قطرنے کہا : ’جونہی فریقین اس بے رحم ظالم جنگ کو ختم کرنے پر تیار ہوئے، ہم دوبارہ اپنی کوششیں شروع کر دیں گے۔ غزہ کے خوفناک انسانی بحران کی صورتحال، جس میں شہری مبتلائے بلا ہیں، اسے ختم کرنے کے لیے۔ ثالثی کو ہم اپنی بلیک میلنگ کا ذریعہ نہیں بننے دیں گے۔ (قبل ازیں سینئر امریکی اہلکار نے کہا تھا کہ کسی امریکی پارٹنر کے دارالحکومت میں حماس لیڈروں کو خوش آمدید نہیں کہا جاسکتا!) قطری ترجمان نے حماس دفتر کے قائم رہنے کی پختہ یقین دہانی کروائی۔ یہی رابطے اور بات چیت کا ذریعہ ہے۔ پچھلے جنگ بندی وقفے اور خواتین بچوں کے تبادلے میں ہم نے تکمیل پر چالبازی دیکھی۔ جو ذمہ داریاں طے پائی تھیں ان سے فرار تھا۔ حقیر سیاسی فوائد کی خاطر جنگ جاری رکھنے کے بہانے تراشے گئے۔‘ اسرائیل تمام یر غمالیوں کی واپسی اور فوج غزہ میں برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ تاکہ یر غمالی واپس ملتے ہی باقی ماندہ غزہ پر ٹوٹ پڑے۔
مغربی میڈیا نے ایمسٹرڈیم میں فٹ بال میچ کے دوران اسرائیلی ٹیم کے ساتھ آئے، ان کے شائقین یہودیوں کی کھلی غنڈہ گردی کو جس طرح موڑا مروڑا، وہ بھی صحافتی بد دیانتی دنیا نے دیکھ لی۔ پہلے محتاط منفی خبریں دے کر، اس کے بعد میڈیا اور مغربی حکومتوں نے ’صیہونی دشمن‘، ’منظم غارت گری‘،’قبیح حملوں‘ کی رٹ لگادی۔ صیہونیوں، یہودیوں کی غنڈہ گردی، ہنگامہ آرائی، مقامی مسلمانوں اور فلسطین دوست حلقوں پر الٹا تھوپ دی گئی، انھیں گرفتار کیا۔ اسرائیلی دنیا بھر میں فساد آرائی کی کھلی چھٹی اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اس میں یہودی پیسہ، بلیک میلنگ اور حکومتوں پر انہی بنیادوں پر دباؤ اصل وجہ ہے۔ شمالی غزہ مٹایا جا رہا ہے۔ خدار امسلمان ہوش کے ناخن لیں۔ ہم میں سے ہر فرد اللہ کے حضور جواب دہ ہے۔
تبصرے بند ہیں.