آخری معرکہ۔۔۔!

82

جیون دھوپ چھاؤں کا نام،زندگی زخم بھی دیتی ہے اورمرہم بھی۔گھاؤ جتنے بھی گہرے ہوں آخرکار وقت کے مرہم سے بھر ہی جاتے ہیں۔لیکن جب زخم لگتے ہیں تولگانے والوں پر غصہ آجانا فطری ہے۔اس لمحے دل کرتا ہے کہ ہر کسی کوتباہ کردیا جائے ۔آسمان کوکھینچ کر زمین کے ساتھ لگادیا جائے۔انسان ردعمل کے راستے پر نکل کھڑاہوتا ہے۔عمل کا راستہ ہوتو پلاننگ اور منصوبہ سازی غالب رہتی ہے۔حکمت عملی سے آگے بڑھا جاتا ہے لیکن رد عمل میں غلطیوں کی گنجائش ہی گنجائش۔عمران خان کو حکومت جانے کا گھاؤ بھی بہت گہراتھا۔یہ گھاؤ آہستہ آہستہ بھرسکتا تھا لیکن خود خان صاحب نے اس زخم کو بھرنے ہی نہ دیا۔شاید وہ خود چاہتے تھے کہ زخم ہرا رہے تاکہ ان کی جلدی وزیراعظم ہاؤس واپسی ہوسکے۔ ان کو جنہوں نے اقتدار سے نکالا ہے وہی اقتدار واپس کرنے پر مجبور ہوجائیں لیکن پھر وہی کہ ردعمل کوئی حکمت عملی نہیں ہوتا۔ردعمل جتنا مختصر اتنا موثر لیکن خان صاحب نے اپنی ساری سیاست ردعمل میں جھونک ڈالی۔نتیجے میں اقتدار میں واپسی کیا ہوتی اب جیل سے ہی واپسی نہیں ہورہی۔وہ حکومت چھن جانے اور اپنے ساتھ گزرے واقعات کا بدلہ پاکستان سے لینے پر تلے بیٹھے ہیں ۔ان کے بدلے کی یہ تحریک حکمت سے دورلیکن غصے سے بھرپور ،نتیجہ نومئی اور سیاسی راستے مسدود۔

گھاؤتونوازشریف کا بھی کسی طورکم نہیں تھا۔عمران خان کی توصرف حکومت گئی تھی لیکن نوازشریف کی تو سیاست ہی چلی گئی تھی۔اُس وقت نوازشریف کا غصہ اور رد عمل دیکھنا ہو تو ان کی فیصلے والے دن کی پنجاب ہاؤس کی پریس کانفرنس دیکھ لیں۔نوازشریف کے پاس بھی کہنے کو بہت کچھ تھا۔ کھولنے کو بہت سے راز تھے۔ ان کو اقامے پر نکالا گیا تھا کیا ان کو نہیں پتہ تھا کہ یہ اقامہ کہاں سے آیا تھا۔ کس نے دیا تھا اور کونسی سازش اس کے پیچھے تھی۔ کیا نوازشریف بھی کسی ملک کے خلاف کوئی سازشی بیانیہ اس وقت نہیں بنا سکتے تھے؟ لیکن کیا انہوں نے بنایا؟ نہیں ۔ اس پریس کانفرنس میں سب کو امید تھی کہ اقتدارکی کرسی سے گرایا جانے والا نوازشریف آج پھٹ پڑے گا۔صحافی سوال پوچھتے رہے لیکن نوازشریف کا ایک ہی جواب تھا کہ ابھی کچھ بھی کہنے کا وقت نہیں ہے ۔ وہ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں لیکن عمران خان صاحب کا ردعمل اس سے باہم متصادم۔

میاں نوازشریف کے اس طرح ردعمل کے بہاؤ میں نہ بہنے کی وجہ سے آج دوبارہ ملک پر ان کے بھائی کی حکومت ہے بیٹی پنجاب کی وزیراعلیٰ۔عمران خان صاحب کارویہ اقتدار سے نکلنے کے بعد اس کے بالکل برعکس رہا۔اس کا نتیجہ بھی بالکل برعکس رہا ۔نوازشریف نے بھی اس وقت کی فوجی قیادت سے حساب مانگنے کی بات کی ۔خلائی مخلوق کی بات کی ۔ووٹ کو عزت دینے کی تحریک چلائی ۔ان کو عمران خان صاحب نے جیل میں ڈالے رکھا لیکن نومئی جیسا کوئی سانحہ ان کے ’’کریڈٹ‘‘ پر نہ ہونے کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ان کے روابط دوبارہ بنے ۔انہوں نے بھی لچک دکھائی اور نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔

اس کے برعکس عمران خان اقتدار سے نکلتے ہی احتجاجی رتھ پر سوار ہوگئے۔امریکی سازش،سائفر کا بیانیہ۔ آرمی چیف جنرل باجوہ مسلسل نشانے پر۔میر جعفر اور میر صادق کی باتیں۔نیوٹرل جانورکے محاورے۔اس مزاحمتی اور رد عمل کی سیاست میں ان کے ہاتھ بہت کچھ آیا تو بہت کچھ ان سے دوربھی چلا گیا۔اس احتجاجی تحریک نے ان کو مقبول بنایا۔درست۔اپنے کارکنوں کی سپورٹ دوبارہ ملی۔درست۔لوگوں کو ان سے ہمدردی ہوگئی کہ واقعی عمران خان امریکا کے سامنے ہی کھڑا ہو گیا۔ درست، کہ ہم جذباتی لوگ ہیں آزادی ،غلامی اورغداری جیسے نعرے لبھاتے ہیں۔اس کے علاوہ کیا ان کی مرکزی خواہش پوری ہوئی ؟نہیں۔ان کویقین تھا کہ وہ امریکی خط لہرائیں گے تو پورا پاکستان ان کو دوبارہ وزیراعظم ہاوس چھوڑکر آئے گااور اس میں ذرا بھی تاخیر نہ ہوگی۔ ان کو دوتہائی اکثریت ملے گی ۔ وہ اکیلے اس ملک پر حکمران ہوں گے ۔نہ کوئی اتحادی نہ کوئی مجبوری۔پھر دس سال صرف کپتان۔یہی مقبولیت کا زعم ان کو نومئی جیسی غلطی پر مجبورکرگیا۔نومئی نے بہت کچھ بدل دیا۔ پی ٹی آئی نے وہ احتجاجی جدوجہد جو اقتدار واپس پانے کے لیے شروع کی تھی اب عمران خان کو جیل سے نکالنے کی نذرہوچکی ہے۔

احتجاج اور دھرنوں سے سب کچھ حاصل کرنے کی خواہش انتہائی خوش کن لیکن حقیقت سے دور۔پاکستان کی تاریخ گواہ کہ دھرنوں کے نتیجے میں کبھی کوئی حکومت اتنی مجبور نہیں ہوئی کہ مظاہرین کے سامنے بے بس ہوجائے اور گھٹنے ٹیک دے۔اگر احتجاج اور دھرنوں سے حکومت گرتی تو دوہزار چودہ سے بڑا اورکڑاحملہ اور کوئی تھا ہی نہیں۔اس وقت عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری دونوں ڈی چوک میں۔بپھرے ہوئے کارکن۔ پی ٹی وی تہہ تیغ۔پارلیمنٹ ان کے انگوٹھے کے نیچے۔ سپریم کورٹ کی دیواروں پرقبضہ۔ قبریں اور کفن ۔ملک کا وزیراعظم محصور۔ حکومت عملاً مفلوج۔ دھرنے والوں کو مبینہ طورپراسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت۔نوازشریف کو سبق سکھانے کا مشن ۔حالات ہر طرح سے حکومت وقت کے مخالف لیکن پھر بھی حکومت بچ گئی۔عمران خان کو ناکام واپس جانا پڑا۔

آج کے حالات اس سے قدرے مختلف ۔لوگ ان کے ساتھ ضرور، شاید پہلے سے کچھ زیادہ لیکن اسٹیبلشمنٹ دوسری طرف۔پی ٹی آئی 25مئی 2022اورنومبر2022میں لانگ مارچ آزماچکے۔اس وقت عمران خان صاحب خود باہر قیادت کے لیے موجود تھے ۔لیکن آج وہ جیل میں ہیں اور یہ احتجاج کی کال ان کو جیل سے رہاکروانے کے لیے ہے۔بظاہر چار مطالبات کہ چھبیسویں آئینی ترمیم واپس لی جائے۔ملک میں جمہوریت بحال کی جائے اور مینڈیٹ واپس ہولیکن اصل او ر حقیقی مطالبہ ایک ہی کہ ہمیں آزادکریں۔اس فائنل کال میں ایسا کیا کرلیا جائے گا جو گزشتہ سال میں نہیں کیا گیا کہ عمران خان جیل سے رہا کردیے جائیں گے ؟

ابھی تک حکومت پی ٹی آئی کے احتجاج کو پسپا کرتی آئی ہے۔اب چوبیس نومبر کو حتمی کال دے دی گئی ہے اس کے لیے تیاری بھی کی جارہی ہے لیکن حاصل وصول کیا ہوگا۔کیا حکومت پی ٹی آئی کو دوہزار چودہ کے دھرنے کی تاریخ دہرانے کی اجازت دے گی ؟ اس سوال کا جواب ناممکنات میں لگتا ہے اور کیا پی ٹی آئی اپنی تاریخ دہرانے کی پوزیشن میں ہے ؟ اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔میرے تجزیے کے مطابق لانگ مارچ یا دھرنے سے انہیں کوئی ایسی کامیابی نہیں ملے گی کہ جومانگا گیا ہے وہ حکومت ان کو پلیٹ میں رکھ کردے دے ۔مختصر یہ کہ پی ٹی آئی اسی تنخواہ پر کام جاری رکھے گی۔

تبصرے بند ہیں.