م±لک کئی بحرانوں کی لپیٹ میں ہے اور حکمرانوں کے دورے ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ، پاکستان کی سیاست سے ل±وٹ مار ، اندھا د±ھند مراعات اور شاہانہ پروٹوکول اگر نکال دئیے جائیں مفت کی سیاست پر کوئی تھوکے گا بھی نہیں ، خالصتا ًخدمت کی سیاست کرنے والے یا تو مر کھپ گئے یا موجودہ ”کاروبار سیاست“ سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے ، سیاست میں اجارہ داری زیادہ تر اب ا±ن چوروں اور ڈاکوو¿ں کی ہے جنہوں نے ملک کو کنگال کر کے ا±س مقام پر پہنچا دیا جہاں ہمارا شمار اب زندوں میں ہوتا ہے نہ مردوں میں ، سچ پوچھیں”کھسروں“ میں بھی نہیں ہوتا کہ اپنے حقوق کے لئے تھوڑے بہت ہاتھ پاو¿ں وہ بھی مار لیتے ہیں ، یہ م±لک ایک تو قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے دوسرے نااہل اور فنکار حکمرانوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے ، حکومت تو ظاہر ہے انہیں کرنی نہیں آتی المیہ یہ ہے فنکاری بھی کرنی نہیں آتی ، ا±دھر بھی یہ پکڑے جاتے ہیں ، ان سب کو اپنے ”آج“ کی فکر ہے ، عوام یا ملک کے ”کل“ کی بہتری کا کوئی تصور ان کے ہاں نہیں ہے ، حکمرانوں کو چھوڑیں خود عوام کو اپنی کوئی فکر نہیں ورنہ کچھ عرصہ پہلے جو مہنگائی ہوئی ، بلوں میں جو ہوش ر±با اضافہ ہوا ، الیکشن میں فارم 47 کے ذریعے جو ڈاکے ڈالے گئے ، حال ہی میں آئین کی ایک بار پھر جو درگت بنائی گئی ، نو مئی کے واقعے کی آڑ میں جو ظلم و ستم بے شمار بے گناہ لوگوں پر ڈھائے گئے ، کتنے لوگ اس کے خلاف باہر نکلے ؟ ایک زمانہ تھا جب کوئی حکومت عوام دشمن فیصلہ کرتی بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آتے تھے ، مارکیٹیں بند کر دی جاتی تھیں ، پہیہ جام ہڑتالیں ہوتیں تھیں ، اور اس کے نتیجے میں حکومت اپنا وہ عوام دشمن فیصلہ لینے پر مجبور ہو جاتیں تھیں ، اب سارا احتجاج سوشل میڈیا پر ہوتا ہے اور اس کا کسی پر کوئی اثر ہی نہیں ہوتا ، ڈھٹائی اور بے شرمی کا ایسا ماحول حکمرانوں نے قائم کر دیا ہے جہاں ا±ن کی بے شرمیوں یا ان کے ظلم و زیادتیوں کے خلاف کم لوگ بولتے ہیں ، ایک اور المیہ بھی ہوا ، کچھ ریاستی اداروں نے اپنی اندھا دھند طاقت کا دھونس جمانے کے لئے دوسرے ہر ادارے کو بے توقیر اور کمزور کر دیا ہے ، یہ وقت بھی اس ملک میں آنا تھا عدالتی فیصلے کئی کئی روز صرف اس لئے روک لئے جاتے ہیں کہ کہیں اور سے ا±ن کی منظوری نہیں مل رہی ہوتی ،ہم ان دنوں ساری شرم وکیلوں کو دلانے میں مصروف ہیں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم یا ا±س کی ضمنیوں یا کمینگیوں کے خلاف وہ سڑکوں پر نہیں نکلے ، ممکن ہے اس بار ا±نہیں مال مراعات یا احکامات سڑکوں پر نکلنے کے لئے نہیں خاموش رہنے یا ہو میو پیتھک سا احتجاج کرنے کے ملے ہوں گے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے آئین کی حالیہ پامالیوں کے خلاف عدلیہ نے خود کیا کردار ادا کیا ؟ کوئی آواز اٹھی کوئی استعفیٰ آیا ؟ اپنی بے عزتی یا بے توقیری کا کسی کو خود خیال نہیں کوئی اور کیوں خیال کرے گا ؟ خصوصا ًوہ لوگ کیوں کریں گے آئین کی حالیہ پامالی سے جنہیں مزید بڑے بڑے فائدے اور عہدے ملنے ہیں ، کچھ شخصیات اپنے ادارے کی بے توقیری پر اگر مستعفی ہو جاتیں انہوں نے کوئی بھوکا تو نہیں مر جانا تھا ، اپنے حصے کی کوئی ایک شمع کسی نے جلائی ؟ کوئی ایک چراغ روشن ہوا جس سے اس تاثر پر زد پڑتی کہ معاشرہ بالکل ہی مردہ نہیں ہوگیا ، تھوڑی بہت جان اس میں ابھی باقی ہے ، ایماندار ججوں کی جتنی تنخواہ ہوتی ہے ا±س سے زیادہ وہ وکالت سے کما لیتے ہیں ، پاکستان میں بے شمار ایسی مثالیں موجود ہیں اہل اور ایماندار وکلاءکو جج بننے کی پیشکش ہوئی انکار کرتے ہوئے ا±نہوں نے کہا ”ہم یہ گھاٹے کا سودا نہیں کریں گے“ ، ان کے نزدیک یہ بھی”گھاٹے کا سودا“ ہی ہے وہ اپنے منصب سے انصاف نہ کر سکیں یا دوسروں کو انصاف نہ دے سکیں ، اب تو انتہا ہی ہوگئی ہے ، عدالتوں کے احکامات کو ہوا میں اڑانے یا ان کا تمسخر ا±ڑانے کا معاملہ مزید آگے بڑھا پھر یہ ملک تباہی اور بربادی کے ایسے گڑہے میں گر جائے گا جہاں سے کوئی اسے نہیں نکال سکے گا ، سب کے اپنے اپنے مفاد ہیں ، پی ٹی آئی آج چھبیسویں ترمیم کے خلاف بڑی باتیں کر رہی ہے ، کیا عمران خان کا ایک ایسا بیان سامنے آیا”ہم اگر دوبارہ اقتدار میں آئے یہ ترمیم ختم کر دیں گے“ ، یہ کبھی ختم نہیں کریں گے کیونکہ یہ ترمیم انہیں بھی اتنا ہی فائدہ پہنچائے گی جتنا موجودہ حکمرانوں کو پہنچا رہی ہے ، آئین کی تازہ ترین پامالی میں سیاسی و اصلی حکمرانوں کے سہولت کار ججوں کا کردار بھی تاریخ ہمیشہ یاد رکہے گی ، ہم لاکھ سارا ملبہ سیاسی حکمرانوں پر ڈالتے رہیں مگر یہ حقیقت ہے اس ملک کے نظام عدل کو اتنا نقصان ”سیاسی حکمرانوں“ نے نہیں پہنچایا جتنا ”سیاسی ججوں“ نے پہنچایا ہے ، ماضی قریب و دور میں کچھ ایسے جج بھی ہم نے دیکھے جو دن کو عدالتوں میں ہوتے تھے پارٹ ٹائم شریف سیاسی حکمرانوں کی چاکری کرتے تھے ، ہائی کورٹ کے ایک چیف جسٹس سے میری موجودگی میں ایک نون لیگی ایم این اے نے کہا ”فلاں سیشن جج کا تبادلہ فلاں اچھی جگہ پر کر دیں“ ، چیف جسٹس فرمانے لگے ”ملک صاحب وہ بہت ہی کرپٹ سیشن جج بلکہ ”السیشن جج“ ہے“ ، ایم این اے ملک صاحب کا اصرار بڑھا تو چیف جسٹس فرمانے لگے ”اچھا فیر مینوں اک چھوٹی جئی کال وڈے میاں صاحب کولوں کروا دیو فیر میں کر دیاں گا تبادلہ“
کہتے ہیں کسی ملک کا نظام عدل ٹھیک ہو جائے اس کے باقی سارے نظام خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں ، ہم اپنا نظام عدل شاید اسی لئے ٹھیک نہیں کرنا چاہتے کہیں ا±س کے بعد ہمارے باقی سارے نظام ٹھیک نہ ہو جائیں اور کہیں اس کے بعد ہمیں خود بھی نہ ٹھیک ہونا پڑ جائے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.