بنگلہ دیش سے اچھے تعلقات۔ چند تجاویز

108

ڈپلومیسی میں درست اور بروقت اقدامات سے ہی ملکی مفاد کے لیے بہتر نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں مگر ہماری خارجہ پالیسی کا یہ عمومی رویہ ہے کہ ہم دوسرے ملکوں سے تعلقات میں درست اقدام یا بروقت اقدام میں سے کسی ایک یا دونوں کو مِس کردیتے ہیں۔ اِسے سست روی کہئے یا کوتاہ نظری۔ بہرحال لمحوں کی غلطیوں کی سزا صدیوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران حالات نے ہمیں ڈپلومیسی میں ایک شاندار اور موثر کام کرنے کا موقع فراہم کیا ہے لیکن ہماری بے پروائی اور آج کے اہم کاموں کو کل پر ملتوی کرنے کے مزاج کو دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ شاید یہ موقع بھی ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ اگست 2024ءکے بعد بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان کے لیے جو دوستانہ اشارے آئے ان سے اب تک ہم نے کتنا فائدہ اٹھایا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جو موجودہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے سوچنے والوں کو فکرمندی میں مبتلا کئے جارہا ہے۔ ہمارے ہاں اس معاملے میں حکومتی سطح پر چند اچھے بیانات یا ہمارے وزیراعظم شہباز شریف کی بین الاقوامی کانفرنسوں کے دوران بنگلہ دیش کے موجودہ سربراہ ڈاکٹر محمد یونس کے ساتھ خیرسگالی جملوں کے علاوہ کوئی قابل ذکر عملی اقدامات سامنے نہیں آئے۔ دوسری طرف وقت ہے کہ مٹھی سے ریت کی طرح پھسلتا جارہا ہے اور یہ نہ ہوکہ ہسٹری ہمیں 1971ءکی طرح ایک مرتبہ پھر عاقبت نااندیش قرار دے دے۔ البتہ حال ہی میں پاکستان میں منعقد ہونے والی کثیرالملکی فضائی مشقوں انڈس شیلڈ 2024ءکے دوران چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے ان مشقوں میں شریک ہونے والے بنگلہ دیشی فوجی افسروں سے خوشگوار موڈ میں مصافحہ کیا جسے ایک مثبت پیغام سے تعبیر کیا گیا۔ بہرحال پاکستان کی حکومت کو بنگلہ دیش کے ساتھ مستقبل کے اچھے تعلقات کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ لہٰذا درج ذیل معاملات میں فی الفور پیش قدمی کرنی چاہئے۔ بنگلہ دیش کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے خصوصی مواقع اور خصوصی رعایتیں دی جائیں۔ دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے بینکوں کی زیادہ شاخیں کھولی جائیں تاکہ تجارتی رابطوں، رقوم کی منتقلی اور ادائیگیوں میں آسانیاں پیدا ہوں۔ بنگلہ دیش میں سیلاب جیسی قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں عوامی سطح پر فنڈریزنگ کی جائے اور حاصل ہونے والے فنڈز بنگلہ دیش ایمبیسی کے اکاﺅنٹ میں جمع ہوں۔ پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ میں بنگلہ دیش کی اُن جائز قراردادوں کی مکمل اور بھرپور حمایت کی جائے جو ہمارے ملکی مفادات کے خلاف نہ ہوں۔ بنگلہ دیش، پاکستان، روس اور چین کا ایک نیا معاشی و معاشرتی بلاک بننا چاہئے تاکہ خطے کے حالات سے مشترکہ طور پر نبرد آزما ہوا جائے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دفاعی معاملات کے حوالے سے بھی معاہدہ ہونا چاہئے۔ پاکستان کی جانب سے بنگلہ دیش کو میڈیکل اور علاج معالجے کے شعبے میں سِول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی معاونت فراہم کی جانی چاہئے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان کا پہلا کارگوشپ بنگلہ دیش کی چٹاگانگ بندرگاہ پر چند دن قبل لنگرانداز ہوا۔ ایسے کارگو شپس کی تعداد زیادہ سے زیادہ بڑھانی چاہئے تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان ٹریڈنگ کو ایک سستا ذریعہ ملے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست سستی پروازیں شروع کی جائیں تاکہ آمدورفت میں اضافہ ہو۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں اور پروفیشنل کالجوں میں بنگلہ دیش کے طالب علموں کو زیادہ سے زیادہ داخلے دیئے جائیں اور یہ داخلے سکالرشپ کی بنیاد پر ہوں تاکہ بنگلہ دیش کی نوجوان نسل کو ہماری محبتوں کا احساس ہوسکے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں فارسی کو اہم آپشنل مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بنگالی کو بھی اہمیت دی جانی چاہئے اور پاکستانی طالب علموں کو بنگالی سیکھنے اور پڑھنے کا مکمل موقع دیا جائے۔ اگر شروع میں بنگالی سکھانے والے اساتذہ نایاب ہوں تو اس کمی کو بنگلہ دیش سے آن لائن ٹیچنگ کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں بے حد اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ فارسی کبھی پاکستان کے کسی صوبے کی سرکاری زبان نہیں رہی جبکہ بنگالی ایک زمانے میں پاکستان کے بڑے صوبے کی سرکاری زبان تھی۔ لہٰذا بنگالی زبان کو اپنائیت کے ساتھ سیکھنا اور پڑھنا چاہئے۔ نیز یہ کہ پاکستان کے مقابلے کے امتحانات میں جہاں دیگر زبانوں کی آپشن موجود ہے وہیں بنگالی زبان کی ترجیحاً حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے۔ دونوں ملکوں کی علمی شخصیات، علمائ، اساتذہ، صحافیوں، ادیبوں، فنکاروں، سابق سفارت کاروں، کھلاڑیوں، نوجوانوں، گرل گائیڈز، سکاﺅٹس اور چھوٹے تاجروں وغیرہ کو ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کرائے جائیں اور مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا جائے تاکہ نئے ادب، نئے افکار اور نئے ترنم کا آغاز ہوسکے۔ نیز دونوں ملکوں کے اہم لٹریچر کو بھی ایک دوسرے کی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے تاکہ عوام آسانی اور دلچسپی سے ایک دوسرے کا مطالعہ کرسکیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کے لیے باہمی ثقافتی سرگرمیوں کی بھرپور شروعات کی جائیں تاکہ یہ کلچرل ملاپ مستقبل کی مضبوط سنگت کا ضامن ہو۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کی فلمیں، ڈرامے، تھیٹر اور مشہور ریڈیو پروگرام اردو اور بنگالی میں ترجمہ کرکے ایک دوسرے کے ملکوں میں ٹیلی کاسٹ اور نشر کیے جائیں۔ فلم، ڈرامہ، تھیٹر اور ریڈیو وغیرہ کے پروڈیوسرز اور سکرپٹ رائٹرز کو ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کرائے جائیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مصوروں کے فن پاروں کی ایک دوسرے کے ملکوں میں نمائشیں کرائی جائیں اور فیشن شو منعقد کیے جائیں۔ دونوں ملکوں میں یادگاری ٹکٹوں کا اجرا کیا جائے۔ دونوں ملکوں کے سیاسی رہنماﺅں اور پارلیمانی وفود کا تبادلہ بھی بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ خاص طور پر پاکستان اور بنگلہ دیش کے ایسے شہری جو 1971ءسے قبل شعوری زندگی میں آچکے تھے اور اب تک حیات ہیں، ایسے سینئر سٹیزن کو ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کرائے جائیں اور ماضی کی خوبصورت یادوں کے ساتھ آپس میں گھل مل جانے کا موقع فراہم کیا جائے۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے راقم الحروف کے مندرجہ بالا تجویز کئے گئے اقدامات اتنے ناممکن بھی نہیں کہ انہیں ہمالیہ کی چوٹی سرکرنے جیسا کہا جاسکے۔ بیشک یہ سب کچھ ایک دم اور ایک ساتھ نہیں ہوسکتا لیکن اِن نکات پر کام کی طرف پہلا قدم تو اٹھایا جاسکتا ہے اور یہی آغاز مستقبل میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے مضبوط دوستانہ تعلقات کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.