لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں اسموگ خطرناک حد سے بھی اوپرجا چکا ہے۔ جوسانس کی بیماریوں، آنکھوں میں جلن اور دل کے امراض کی بنیادی وجہ ہے۔ میڈیکل اورموسمیات کے ماہرین ماحولیاتی سنگینی اوراس کے اثرات سے آگاہ بھی کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی نسبت سے اب یہ پیغام تقریباً ہرشخص تک پہنچ چکا ہے کہ ہم کس خوفناک صورتحال سے دوچارہیں۔ لیکن ہماری حالت اس کبوتر کی سی ہے جوآنکھیں بند کر کے یہ سمجھتا ہے کہ بلی اسے نہیں کھائے گی۔ یہاں ہر شخص ہاتھ پرہاتھ دھرے منتظر ہے کہ کوئی اور آ کراس مسئلے کو حل کرے گا۔ جب تک ہماری یہ سوچ نہیں بدلے گی یہ ملک اسی طرح کے مسائل سے دوچار رہے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پالیسی سازی اورقوت نافذہ رکھنے کی وجہ سے بڑی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ لیکن موجودہ مسئلے کی ذمہ داری تنہا حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ جو شخص پرانے انجن کی موٹرسائیکل، کار یا ویگن کو درست حالت میں رکھے بغیرچلارہا تووہ بھی اس ماحول کو اس حالت میں پہنچانے کا ذمہ دار ہے۔ وہ فیکٹری مالک جو اس ملک میں رہ کر ڈھیروں ڈھیرمنافع تو کماتا ہے لیکن اپنی فیکٹری کوجدید بنانے کے لئے پیسہ خرچ کرنے کو تیار نہیں۔ البتہ بیورو کریسی اور ماحولیاتی اداروں کو رشوت دے کر کارخانے کا زہریلا دھواں فضا میں چھوڑ رہا ہے وہ بھی شریک جرم ہے۔سموگ صرف شہروں کا نہیں دیہاتوں کا بھی مسئلہ ہے۔ ہمارے کسان بھائی کیا سمجھتے ہیں کہ جب وہ فصلوں کی باقیات جلائیں گے تو کھلا آسمان ہونے کی وجہ سے انھیں اس کا کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اس وقت دیہاتوں کی فضا بھی زہر آلود ہوچکی ہے۔ اس موقع پر راحت اندوری کاوہ شعر یاد آرہا ہے کہ
لگے گی آگ تو آئیں گے کئی گھر زد میں
محلے میں صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
ہم نے دوکام بڑی شدومد سے کئے ایک اپنی تن آسانی کے لئے ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال کیا اور دوسری طرف درخت کاٹ کر ماحول کو اجاڑنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ اگر آپ سردیوں کے دوران بھی لاہورکی کسی بڑی سڑک پرنکلیں توگاڑیوں کی بہتات کے باعث ٹمپریچر تین سے چار ڈگری زیادہ ہوتا ہے۔ اب ہر گھر میں اے سی اور بجلی سے چلنے والے آلات مسلسل درجہ حرارت بڑھا رہے ہیں۔ ہم نے اپنا کوڑا کرکٹ، گھریلو اور صنعتی فضلہ تلف کرنے کے جو طریقے اپنائے ہیں وہ قطعاًماحول دوست نہیں ہیں۔شہروں کے باہر بڑے ڈمپنگ زون بنا کر کوڑا جلانے کی بجائے اگر شہرمیں ہردوکلومیٹر پر ایک ری سائیکل زون بنا دیا جائے۔ اس میں عوامی تعاون کے ذریعے کہ وہ اپنا کاغذ، دھاتی اور دیگر کوڑے کو الگ پولی تھین میں ڈال کر باہر رکھیں۔ حکومت ان کے لئے الگ رنگ کے بیگز فراہم کرے۔
لاہورجیسے شہرمیں صرف اٹھارہ ماہ کے اندر پورے شہرکو صاف رکھنے کا سیلف سسٹین ایبل منصوبہ قابل عمل بنایا جاسکتا ہے اور عوام سے صفائی کی مد میں کوئی فیس بھی نہیں لی جائے گی۔ اسی طرح سے حکومت چاہے تو شہری مضافات میں سرکاری زمینوں پر ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کی بجائے آرگینیکل اربن فاریسٹ کو فروغ دے۔ محکمہ جنگلات اور ماحولیات کو اپنی توانائیاں اس پر صرف کرنی چاہئیں۔ اس وقت حالات یہ ہیں کہ محکمہ ماحولیاتی پروٹیکشن ایجنسی پنجاب اپنی اہم ذمہ داریوں کو چھوڑ کر تھانیداری رول اختیار کر چکی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے انوائرمنٹ کیس میں اہم ہدایات کو نظر اندازکرکے شہرمیں تمام کاروباری سرگرمیوں کو تعطل کا شکار کیا جاررہا ہے۔ ماحولیاتی پروٹیکشن ایجنسی پنجاب کی جانب سے لاہور،فیصل آباد، ملتان اورگوجرانولہ جیسے اہم اور کاروباری شہروں میں ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے رات آٹھ بجے کے بعد ایک جانب تمام کاروبار بند کرنے کا کہا گیاہے تو دوسری جانب ایک پوری فہرست جاری کی گئی ہے جس میں فارمیسی، پٹرول پمپ، بیکری، تندور، دودھ، کریانہ، مٹھائیوں، پھل سبزی،گوشت، ای کامرس، کوریئر، گیس،انٹرنیٹ اور ٹیلی کام نیٹ ورک کھلے رکھنے کی ہدایت ہے۔ بڑے بڑے ڈیپار ٹمنٹل سٹورز میں صرف گروسری سیکشن اورفارمیسی کھلے رکھنے کی ہدایت ہے۔عام طورپر بڑے شہروں میں لوگ اپنے کاروبار، فیکٹری یا آفس سے فری ہو کر شام کو شاپنگ کرتے ہیں۔خاص طورپرجب موسم تبدیل ہورہا ہوتو یہ خریداری بہت ضروری ہوتی ہے۔ لاہور، فیصل آباد،ملتان اور گوجرانوالہ جیسے بڑے شہروں میں لوگ اب زیادہ ترخریداری اب مالزاوربڑ ے شاپنگ سینٹرزمیں کی جاتی ہے جو کورڈ ہونے کیوجہ سے کافی حد تک محفوظ ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے سڑکوں پر رش کم ہواہے اور نہ سموگ میں کوئی کمی آئی ہے۔البتہ صرف لاہورمیں پانچ دنوں کے دوران ڈھائی ارب روپے کی معاشی سرگرمی کم ہوئی ہے۔ میرے ایک دوست جو جوتوں کے برانڈ کے مالک ہیں۔ انھیں لاہور کے ایک اسسٹنٹ کمشنر کیجانب سے نوٹس موصول ہوا کہ آپ اپنے سٹور پر سٹاف آدھا کر دیں۔آدھے لوگ ورک فراہم ہوم کریں۔ ان اسسٹنٹ کمشنر صاحب سے عرض ہے کہ جناب کیا یہ پریکٹیکل ہے کہ کوئی بندہ گھرمیں بیٹھ کر دکان پر آئے گاہک کو ڈیل کرے۔ میرے وہ دوست کہنے لگے کہ ایک جانب حکومت تاجر دوست ہونے کی دعوے دار ہے دوسری جانب بیورو کریسی اور پولیس فورس تاجروں کو باقاعدہ ہراساں کرنے پرتلی ہوئی ہے۔ کوئی سرکاری آرڈر نہ ہونے کے باوجود دکانیں بند کرانا، سیلزسٹاف کو دھمکانا،کیا ان
حالات میں ہم کاروبارجاری رکھ سکیں گے؟ عدالتی حکم کے مطابق رات کو شہروں میں کنسٹرکشن مٹیریل لے کر داخل ہونے والی بھاری گاڑیوں اور لاری اڈوں پر دھواں چھوڑنے والی بسیں سموگ کی بڑی وجہ ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔آپ شہرکے داخلی راستوں پر کھڑے ہوکر مشاہدہ کریں ان پر کوئی روک ٹوک نہیں البتہ اینٹری ریٹ بڑھ گیا ہے۔ میرے ایک اوردوست جو دودن قبل گوجرانولہ میں ایک اعلیٰ پولیس افسر کے پاس ملاقات کے لئے موجود تھے۔ تووہاں بھی سموگ پر عدالتی حکم پر تشویش پائی جاتی تھی۔ اس کے حل کے لئے زیادہ سے زیادہ چالان اور گرفتاریوں پر زور دیا جار ہا تھا تاکہ عدالت میں کارکردگی پیش کی جاسکے۔حکومت اورعوام سب چاہتے ہیں کہ وہ صاف ہوا میں سانس لیں لیکن کیا یہ ہوا ڈنڈے سے صاف ہو گی؟ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اختیار ملنے پر مسئلہ حل کرنے کی بجائے اس سے اپنے فائدے لئے ایک نیا موقع پیدا کر لیتے ہیں۔ دوسرا ہمارے نظام نے ہماری ٹریننگ ایسی کر دی ہے کہ ہم دوراندیشی سے سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے ہیں۔ ہمیں لندن اور بیجنگ کی سموگ بھری تاریخ سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماحول دوست پالیسیز کے ذریعے عوام کو تیار کرنا ہو گا اور مل کر ہی اس عفریت سے چھٹکارہ ملے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.