سوتی ہیں آنکھوں کی گلیاں، دل کی بستی ویران ہے
ایک خموشی ایک اندھیرا چاروں جانب رقصاں ہے
زندگی بہت مختصر ہے… وہ یہ بات جانتا تھا… موت زندگی پر رقصاں ہے وہ یہ بھی جانتا تھا… آج نہیں کل تو مرنا ہے، وہ یہ بھی جانتا تھا… ایک نہ ایک دن تمام رشتے تمام ناطے… تمام یاریاں… تمام نفرتیں، محبتیں اسی دنیا کے حوالے کرکے موت کی آغوش اور لحد میں اترنا ہے… وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ساری عمر اس نے دنیا سے اٹھنے والے جناروں کو کندھے دیئے، کل کو اسے بھی کندھا دینے والے آئیں گے… وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ایک دن زندگی کے ساتھ اس کا قلم بھی خاموش ہو جائے گا اور قلم اس وقت خاموش ہوگا جب وہ مر جائے گا، وہ یہ بھی جانتا تھا آج منیر راج بھی 74سال کی عمر میں مر گیا… وہ طویل عرصہ سے بیمار تھا… ادبی، افسانوی، ڈرامائی اور فلمی نگار خانوں اور ڈراموں کا بہت بڑا قلمکار منیر راج کے دنیا سے جانے کے بعد ایک خوبصورت کہانی، خوبصورت ڈرامہ، خوبصورت فلم کا تخلیق کار کا عہد بھی اس کے ساتھ منوں مٹی تلے دب گیا۔ منیر راج کی موت پر مجھ سے کچھ نہیں لکھا جا رہا۔ نجانے کیا اِدھر اُدھر کی ہانک رہا ہوں۔ اس یقین کے ساتھ کہ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے اور یہی یقین کہہ رہا ہے کہ وہ زندہ ہے، اس کا قلم زندہ ہے، اس کے لکھے ڈراموں کے سکرپٹ موجود ہیں۔
زندگی کا سفر ہے یہ کیسا سفر
کوئی سمجھا نہیں کوئی جانا نہیں
زندگی کو بہت پیار ہم نے کیا
موت سے بھی محبت نبھائیں گے ہم
میرے ساتھ ایک طویل بندھن… ایک طویل دوستی… ایک طویل ملاقاتوں کا سلسلہ بھی گزشتہ روز اس کے دنیا سے جانے کے بعد تھم گیا بلکہ ختم ہو گیا۔ حال ماضی میں بدل گیا۔ مجھے یاد ہے ذرا…ذرا۔یہ سن 80کا آغاز تھا جب میری ملاقات اوپن ایئر تھیٹر میں اس وقت الحمرا نہیں بنا تھا۔ ڈرامے اور ان کی ریہرسلز یہاں ہوتی تھیں تو ایک ڈرامے کی ریہرسل کے دوران دبلے پتلے سے منیر راج رائٹر کے نام سے ہوئی… پھر یہی ملاقات عشروں پر محیط ہو گئی… اس دوران مجھے احساس ہوا کہ وہ دنیاوی رائٹر ہی نہیں اپنے اندر سے ایک اور منیر راج کو پالے ہوئے ہے۔ جس کا اس کے قلم کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں یعنی میرا تعارف ایک نہیں دو انسانوں سے ہوا۔ ایک وہ جو بہت بڑے رائٹر کے طور پر بڑا نام لئے فنی سفر پر رواں دواں تھا اور دوسرا وہ منیر راج جو اندر سے بہت مختلف بہت انوکھا بہت وکھری ٹیپ اور بہت ہمدرد تھا… وہ ہر ملاقات میں لوگوں کو اپنے اندر اتار لیتا۔ سگریٹ کے لمبے کش کے دوران وہ جب دھوئیں کے ساتھ باتیں کرتا اور پھر باتوں ہی باتوں میں ایک نہیں کئی سگریٹ فضاء کی نظر کر دیتا۔ کل کا زندہ منیر راج ہم میں نہیں۔ آج وہ سب کو چھوڑ کر اپنی زندگی کے ڈرامے موت کا آخری سین لکھ کر موت کا راہی ہو گیا… منیر راج کے بارے میں، میں نے ایک بات لکھی تھی اور یہ بات اس وقت لکھی جب میں نے منیر راج کا ایک دفعہ بہت طویل انٹرویو کیا تھا۔ اس دوران مجھے احساس ہوا کہ زندگی واقعی ایک طویل تلاش ہے اور اس تلاش کے سنگ میل تو ہیں مگر منزل نہیں۔ بحیثیت قلمکار، دوست اس کے کئی پیش رو تھے جو چلتے دریا کی طرح بہہ رہے تھے اس کی زندگی کے کئی موڑ کئی اور راستے تھے۔ ایک مثل ہے کہ پانی جب پہاڑوں، وادیوں اور صحرائوں کی طرف دوڑتا ہے تو اس کی رفتار میں بلا کی سی تیزی ہوتی ہے۔ وہ لہروں کی طرح بل کھاتا اور جھپٹتا راستے میں ہر آنے والی چٹانوں سے ٹکراتا آگے کی طرف بڑھتا رہتا ہے۔ اسی طرح منیر راج نے بھی اپنی زندگی کا آغاز دریا کی طرح کیا… وہ موج کی طرح بل کھا کر اٹھا… پہاڑوں کا مقابلہ کیا، راستہ بنایا اور پھر پاکستانی تھیٹر اور ٹی وی ڈرامے کی تاریخ رقم کرتے کرتے کل اس نے اپنی موت کا اعلان کر ڈالا۔ میں نے زندگی بھر اس کو بہت اچھے تو بہت برے حالات میں بھی دیکھا۔ وہ اسی زندگی میں کئی بار مرا، کئی بار اٹھا، کئی بار جاگا مگر نامساعد حالات میں بھی وہ کسی کے در پر نہیں گیا۔ یہی تمام عمر اس کا بڑا پن تھا۔ نہ قلم کی قیمت لگائی، نہ لفظ کو بیچا… صحیح معنوں میں وہ فقیر تھا… وہ درویش تھا… وہ ملنسار تھا… وہ زندگی بھر پیار تقسیم کرتے کرتے ہمیشہ سب سے الگ اور منفرد نظر آیا… اس نے اپنی زندگی میں بے شمار ڈرامے لکھے مگر اس کی زندگی کی کہانی کسی نے نہیں لکھی۔ ٹی وی کے لئے لکھا… تھیٹر کے لئے لکھا… فلم کے لئے لکھا اور جب بھی لکھا تو اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے بہت خوب لکھا… پنجاب دھرتی کا عظیم قلمکار منیر راج جس نے پنجابی ڈراموں کو منفرد آواز اور زندگی دی…
آج اس خبر نے کہ منیر راج کا انتقال ہو گیا ہے۔ میرے اوپر کوئی گہرا اثر نہیں چھوڑا کہ وہ کسمپرسی کی حالت میں تھا… میں نے زندگی بھر کئی قلمکاروں کو بری حالت میں مرتے دیکھا۔ آپ آج ایک منیر راج کی بات کرتے ہیں۔ یہاں تو بڑے بڑے منیر راج… راج کرتے کرتے بے راج ہوئے اور دنیا سے چلے گئے… ہمارے تو ہزاروں راجوں کے بارے کہا جا سکتا ہے کہ آج مرے کل دوسرا دن مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ کل مرنے والا صرف منیر راج نہیں تھا… نہ صرف اپنی ذات تک منیر راج نہیں تھا… وہ تو ڈرامے کا، فلم کا، تھیٹر کا بہت بڑا، بہت عظیم قلمکار تھا جس نے تینوں فارمیٹ میں لکھا تو پھر خوب لکھا… اردو ادب کی ایک تاریخ کا ایک انمول باب… غضب کا لکھاری منیر راج بھی مر گیا۔ کتنی آسانی سے میں منیر راج کے بارے یہ لفظ لکھ گیا… جبکہ وہ اتنا آسان نہیں تھا۔ ایک شعر اپنے جانے والے منیر راج کے لئے کہنا چاہتا ہوں…
تھک کر یونہی دم بھر کے لئے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اٹھیں یہ ارادہ تو نہیں تھا
اور آخری بات……
سدا رہے اس کا نام پیارا… سنا ہے کل مر گیا وہ…ساحر صدیقی کی شکل میں، میں کبھی منیر راج کو نہ بھلا پائوں گا۔
تبصرے بند ہیں.