جب سے مودی کی حکومت آئی ہے بھارت میں اقلیتوں کے لئے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج تعینات ہے جو جدید اور مہلک اسلحہ کے ساتھ انسانیت کو شرما دینے والے کالے قوانین سے بھی مسلح ہے، جو ظلم و جبر اور انسانی حقوق کی پامالی میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔ مودی سرکار کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لئے سرگرداں ہے، آرٹیکل 370 اور 35 اے بھی ختم کر دیئے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اپنی رپورٹوں میں واضح کر چکی ہیں کہ انسانی حقوق کی پوری دنیا میں سب سے زیادہ پامالی مقبوضہ کشمیر میں ریاستی ایماء پر ہوتی ہے۔ بھارت کے اندر بھی اقلیتوں کے ساتھ سلوک ریاستی دہشت گردی کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ مودی مسلمانوں سے نفرت اور شدت پسندی کی ذہنیت کا دوسرا نام ہے۔ اس کی زد میں آ کر بھارت کا سیکولر وجود خطرے میں پڑ گیا ہے اور بھارت پر ہندو شدت پسندی کے سائے منڈلاتے نظر آ رہے ہیں۔ جب کہ آئین کے مطابق بھارت ایک سیکولر ریاست ہے۔ اقلیتوں کا تحفظ ہر جمہوری ملک و معاشرے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن بھارت میں اب ہندوتوا کی پروردہ بی جے پی کی حکومت ہے جس کا خمیر ہی اقلیتوں کے ساتھ نفرت سے اٹھا ہے، اس نے شدت پسندی کے جذبات کو اپنے مذموم مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ شدت پسند ہندو عناصر مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں سے شدید نفرت کا اظہار کرتے ہیں اور بی جے پی کے ایما پر ان کی نسلوں کے خاتمے کے لئے سرگرم ہیں۔ مودی مائنڈ سیٹ سیکولر انڈیا کو شدت پسند ہندو ریاست میں بدلنے کی کوشش میں ہے ایسا ہوا تو بھارت کی کروڑوں اقلیتوں کے ساتھ ہندو شدت پسند جو کچھ کریں گے اور جس حد تک جائیں گے ماضی میں شدت پسندوں کے مظالم کے پیشِ نظر اس بارے سوچنے سے ہی خوف آتا ہے۔
کشمیر کے نوجوانوں کو اندھا کرنے کی بھارتی فوج کی ناپاک انسانیت سوز کارروائیوں کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔ وہاں کے حکمران اور متعصب سیاستدان اپنے عوام کو مذہبی تعصب پر اکساتے ہیں۔ انہیں پرجوش کرنے کے بعد مذہبی منافرت کے میدان میں دھکیلتے ہیں۔ نسلی تعصب سے بھرپور کرنے کے بعد اپنے مخالفین پر عرصہ حیات تنگ کرنا بھی بھارتی دانشوروں اور فوج سے لیس حکمرانوں کا طرزِ قدیم ہے۔ کشمیر کی وادی میں مقیم آزادی پسند مسلمان دہائیوں سے غلام بن کر گزار رہے ہیں۔ بھارت کی حکومت نے زبردستی ان کو اپنے ساتھ ملا کر ان کا حیوانی طرز پر استحصال جاری رکھا ہوا اور اپنی ریاست کی فوجی قوت کو ان آزادی پسند مسلمانوں کو کچلنے کے لئے وقتاً فوقتاً کارروائی کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ آزادیٔ ہند کے بعد تقسیم کے جن فارمولوں پر عمل کرنا تھا ان میں کشمیر کی آزادی بھی شامل تھی لیکن بھارت کی جابرانہ اور مسلم کش سوچ کے باعث کشمیر کو زبردستی گن پوائنٹ پر غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیا گیا۔
اب جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے معتدل مزاج، امن و محبت کے داعی امریکہ کے صدر منتخب ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ انہوں نے کوئی جنگ شروع نہیں کی بلکہ جنگیں ختم کی ہیں اور اب بھی دنیا میں جاری تنازعات ختم کریں گے۔عالمی امن کے حوالے سے یہ بیان بڑا خوصلہ افزا ہے۔ تو بھارت کے کشمیری مسلمان اور دیگر اقلیتیں توقع کرتی ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کو روکنے کے لئے انتہا پسند ہندوؤں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جانا چاہئے۔ اس تشدد کے پیچھے ریاست ہے، اقلیتوں کو ریاستی دہشت گردی سے بچانے کے لئے محض بیان بازی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے سخت نوٹس لینے کی بھی ضرورت ہے، بھارت کے راہِ راست پر نہ آنے کی صورت میں اس پر پابندیوں سے بھی گریز نہ کیا جائے۔ امریکہ کا بھارت کے حوالے سے رویہ عموماً نرم رہا ہے، بعض حوالوں سے تو دوہرا معیار بھی سامنے آیا ہے۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بھارتی ہٹ دھرمی کی بنا پر امریکہ کے نرم رویے کو بھارت خاطر میں نہیں لائے گا۔ امریکہ بھارت میں اقلیتوں کا تحفظ اور خطے میں امن کا خواہاں ہے تو اسے بھارت کو نکیل ڈالنا ہو گی۔ خطے کا امن مسئلہ کشمیر کے باعث تباہ ہوا ہے جس کا ذمہ دار بھارت ہے۔ امریکہ بھارت کی بے جا حمایت سے گریز کرتے ہوئے کردار ادا کرے تو مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے جس کے ساتھ خطے اور دنیا کا امن وابستہ ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کی تجویز اقوامِ متحدہ نے استصوابِ رائے کی صورت میں دے رکھی ہے۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی ادارے یونائٹڈ سٹیٹ کمیشن آن انٹرنیشنل رلیجئیس فریڈم نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں مذہبی آزادی میں مسلسل کمی آ رہی ہے، بھارت کا کثیر مذہبی، کثیر الثقافتی کردار خطرے میں ہے کیونکہ وہاں ایک مذہب کی بنیاد پر جارحانہ طریقے سے قومی شناخت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم تشدد کی مذمت تو کرتے ہیں تاہم ان کی اپنی جماعت کے لوگ انتہا پسند ہندو تنظیموں سے منسلک ہیں۔ لیکن اب چونکہ امریکہ میں ٹرمپ جیسے انسانی حقوق کی بات کرنے والے برسرِ اقتدار آئے ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا یہ کہا تھا کہ وہ دنیا میں جاری تنازعات ختم کریں گے تو بھارت کو انہیں اس بات پر راضی کرنا چاہئے کہ وہ نہ صرف مسئلہ کشمیر کا حل وہاں کے باشندوں کی صوابدید کے مطابق حل کرے بلکہ بھارت میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کو بھی اپنی مرضی کی زندگی جینے دے، اس حوالے سے انتہا پسند ہندوؤں کو لگام ڈالے۔
تبصرے بند ہیں.