گو دنیا انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مستفید ہو رہی ہے لیکن میں آج بھی اخبارات کی مکمل فائل نہ دیکھ لوں تو میری تسلی نہیں ہوتی ۔ آپ اسے میرا شوق ٗ مجبوری ٗ عادت یا پھر بیماری سمجھ سکتے ہیں لیکن بات بالکل ایسی ہی ہے ۔ آج بھی الیکٹرانک میڈیا کی خبریں تصدیق یا تردید کے مقام پر اُتنی دیر تک فائز نہیں ہوتیں جب تک اخبارات اُس کی صداقت کی تصدیق یا تردید نہ کردیں ۔ سموگ نے ویسے ہی شہروں کے شہر سُلا کر رکھ دیئے ہیں اور اِس پر ٹریفک کا اژدھام کہ رہی سہی سانس بھی پھیپھڑوں سے نکالنے کیلئے سڑکوں پر موجود ہے ۔ پنجاب اسمبلی میں پی پی 149 کے ایم پی اے شعیب صدیقی نے ایک قرارداد پیش کی ہے جس کے مطابق 2012 ء سے لے کر آج تک کوئی نیا پارکنگ پلازہ تعمیر نہیں کیا گیا جبکہ اِن 12 سال میں سڑکوں پر آنے والی گاڑیوں کی تعدا د لاکھوں میں ہے ۔ جسے محلے کا پرچون فروش ادھار نہیں دیتا بنک اُسے گاڑی دے دیتا ہے لیکن گاڑی کیلئے پیٹرول ہے اور نہ ہی گیس ٗ پارکنگ ہے اور نہ ہی ٹریفک سینس ۔سو غیر مربوط ترقی کی اس سے بُر ی مثال اور کیا پیش کی جا سکتی ہے ۔لاہور میں واقع چار پارکنگ پلازوں کی حالت دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ڈی چوک شاہ عالمی میں واقع پارکنگ پلازہ مشرف دور کی یادگار ہے ۔سابق آرمی چیف اس کی چھت پر بسنت کے موقع پر پتنگ بازی بھی کرتے رہے ہیں ۔ اب یہ پلاز ہ نجی افراد کے قبضہ میں ہے اورمن مرضی کا کھیل جاری ہے ۔ شاہ عالمی جہاں پنجاب کے تاجروں کی جنت ہے وہیں یہ مفت بر اورنوسربازوں کیلئے بھی جنت الفردوس سے کم نہیں ۔ ایل ڈے اے نے اس کے ایک فلور پر دکانوں کی اجازت دی تھی لیکن اس وقت پارکنگ پلازے کے بیسمنٹ سمیت کئی مقامات پر دکانیں تعمیر کردی گئی ہیں اور تو اوراِس کے برآمدے بھی تجاوزات کا جہنم ہے لیکن کسی کی کیا جرأ ت کے اِس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ لے ۔ ایل ڈے اے کے افسران کو کبھی اپنے کمروں سے نکل کر عوامی سرمائے کو دیکھنے کی توفیق نہیں ہوئی اور داتا گنج بخش ٹائون کے ایم آر او جنا ب ریاض گجر صر ف ریڑھیوں اور ٹھیکوں کو ہی تجاوزات سمجھتے ہیں۔تاجر حضرات صبح سے لے کر شام تک اِس پلازے میں اپنے گاڑیاں کھڑی رکھتے ہیں جس سے باہر سے آنے والے گاہکوں کیلئے کوئی جگہ نہیں بچتی اوررات کو جاتے ہوئے اس کا ٹھیکیدار 300 روپے سے زائد وصول کرکے اگلے روز کی آس پر بیٹھ جاتا ہے ۔
گلبرگ لبرٹی مارکیٹ کے عقب میں واقع تھانہ گلبرگ کے پہلو میں بنایا گیا پارکنگ پلازہ عرصہ دراز سے ایل ڈی اے اور نجی ٹھیکیدار کے درمیان قانونی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے جس میں کام آنے والوں کی بڑی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو یہاں خریداری کیلئے آتے ہیں لیکن اِس کا احساس ایل ڈی اے کو ہے اور نہ ہی ٹھیکیدار کو ۔ عرصہ دراز سے اس پارکنگ پلازہ میں بجلی کے مسائل چل رہے ہیںجو کسی وقت بھی بڑے حادثے کو جنم دے سکتے ہیں لیکن اس کی کسی کو پروا نہیں۔ لاہور کے تیسرا پارکنگ پلازہ کی تعمیر 2009 ء میں شروع ہوئی اور اِس پر 50 کروڑ روپے کی لاگت آئی ۔ اس کی دو بالائی منزلیں ریسٹورنٹ کے طور پر لیز پر دی گئیں جبکہ بیسمنٹ اور گرائونڈ فلور پر دکانیں تعمیر کی گئیں لیکن اِس کا بھی کوئی پُرسان ِ حال نہیں۔ ایل ڈی اے نے چوتھا اور آج کی تاریخ تک آخر ی پارکنگ پلازہ 2012 ء میں علامہ اقبال ٹائون مون مارکیٹ کے قریب تعمیر کرنا شروع کیا تھا ۔ یہ آٹھ منزل عمارت اُس وقت 80 کروڑ کی لاگت سے تعمیر کی گئی اور ایک کروڑ پچاس لاکھ کے لگ بھگ شہریوں پر مشتمل یہ شہر جہاں پنجاب بھر سے تاجر اور مہمان تشریف لاتے ہیں صرف انہیں چار پارکنگ پلازوں پر اکتفا کر رہے ہیں ۔دنیا بھر میں ہمارے سیاستدان جب تشریف لے جاتے ہیں تو وہاں فی گھنٹہ کے حساب سے پارکنگ کی رقم ادا کرتے ہیں لیکن اپنے ملک میں عوامی روپیہ جس سے یہ پارکنگ پلازے بنے ہیں انہیں نجی قبضہ مافیا کے سپر د کر رکھا ہے ۔ اِن کے ناموں کی فہرست شائع کی جائے تو یہ پنجاب حکومت کیلئے حیران کُن نہیں ہو گی ۔
حقیقت یہ ہے کہ لاہور ہمارا شہر ہے اس کے پھول اورکانٹے سب ہمیں عزیز ہیں ۔جو شخص اِس شہر میں بسنے اور اس شہر میں آنے والوں کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دینے کیلئے آواز اٹھاتا ہے وہ ہمارے لئے قابل عزت بھی ہے اور باعث فخر بھی ۔ شعیب صدیقی نے پارکنگ کے حوالے سے قرارداد بحث کی منظوری کیلئے پیش کی ہے ۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنی بحث میں نہ صرف موجود پارکنگ مافیا سے جان چھڑانے کی مکمل کامیاب کوشش کریں گے بلکہ نئے پارکنگ پلازوں کیلئے بھی مقامات کا تعین کرا لیں گے۔ لاہور کے مشہور اور گنجان ترین بازار انارکلی کیلئے کو ئی پارکنگ پلازہ موجود نہیں جبکہ اس کے نواح میں لاتعداد حکومتی جگہیں موجود ہیں ۔بلا ل گنج کے گنجان ترین علاقے میں کوئی پارکنگ پلازہ نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر وہاں لڑائی جھگڑے ہوتے دکھائی دیتے ہیں اس طر ح چوک داتا دربار میں بھی پارکنگ پلازہ نہ ہونے کی وجہ سے زائرین کا ہجوم ٹریفک میں پھنسا رہتا ہے اور ابھی چند دن پہلے وہاں رکشہ ڈرائیور خود کو آگ لگا کر پولیس وارڈن سے لپٹ گیا جس سے دونوں زخمی ہو گئے ۔ یہ سنگین مسئلہ ہے جب لوگ کسی مسئلے کے حل کیلئے جان دینے اور جان لینے پر تُل جائیں تو وہ ریاست اور حکومت کی فوری توجہ کا طلبگار ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب حکومت کو پیدل چلنے اور سائیکل کے استعمال کے رجحان کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے تاکہ ٹریفک کے مسئلے کے ساتھ ساتھ سموگ سے بھی چھٹکار ا ملے اور عام شہریوں کو صحت بھی نصیب ہو۔ مجھے امید ہے کہ اپنی بحث کے دوران شعیب صدیقی ہسپتالوں میں جاری پارکنگ کی لوٹ مار کی طرف بھی پنجاب حکومت کی توجہ لازمی دلائیں گے ۔ انتہائی ذلت آمیز رویہ ہوتا ہے جب ایک شہری اپنے کسی عزیز کو فوری طبی امداد کیلئے ہسپتال لے کر جا رہا ہو تا ہے تو یہ ہسپتالوں کا پارکنگ مافیااُس کا رستہ روک کر چند روپوں کے خاطر مریض کی زندگی خطرے میں ڈال دیتا ہے ۔ہم بھی عجیب لوگ ہیں پارکوں میں جہاں تندرست لوگ جاتے ہیں وہاں کوئی پارکنگ فیس وصول نہیں کرتے لیکن جہاں زندگی بچانے کیلئے انسان فوری ڈاکٹر کی دسترس میں پہنچنا چاہتا ہے اُس کے رستے میں پارکنگ فیس کی دیوار کھڑی کردی جاتی ہے اور اب تو ہسپتالوں میں بھی فی گھنٹہ کے حوالے سے پارکنگ وصول کی جارہی ہے اور ہسپتالوں کے اردگرد رہنے والے جن کے پاس اپنی ذاتی پارکنگ نہیں ہے وہ ہسپتالوں کے پارکنگ میں مہینہ طے کرکے گاڑیاں کھڑی کررہے ہیں ۔ اس قحط الرجال میں شعیب صدیقی نے لاہوریوں کے اہم ترین مسئلے بارے سنجیدہ قدم اٹھا کر مجھے خوشی کے چند لمحے تو میسر کیے ۔ ویل ڈن شعیب صدیقی ۔
تبصرے بند ہیں.