سموگ: ترقی کی قیمت یا انسانی غفلت؟

84

گزشتہ چند دہائیوں سے فطرت اور قدرت کے ساتھ انسانی چھیڑ چھاڑ اور ان کے تحفظ سے لاپروائی برتے جانے کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک کو ماحولیاتی آلودگی جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے، جس کے مضر اثرات انسان اور حیوانات کی زندگی پر بڑی شدت سے مرتب ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی اور صنعتی ترقی نے آلودگی کے مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ ماہرین بیت و ارضیات کے نزدیک آج کی دنیا میں ماحولیاتی آلودگی ایک انتہائی اہم ترین مسئلہ ہے۔ ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی اور پیچیدہ مسئلہ ہے گرمی کی حدت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں گلیشیر پگھل رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر گلیشیر پگھلنے کی رفتار یہی رہی تو صرف چند سال میں ہی گلیشیر ختم ہو جائیں گے۔ کُل کائنات ایک مکمل وحدت ہے، اس میں کارفرما نظام باہم ایک دوسرے سے مربوط اور بندھا ہوا ہے۔ ربِ کائنات نے کائنات کی ہر چیز کی تخلیق میں ان خصوصیات کا بھرپور خیال رکھا ہے کہ وہ چیز انسانی حیات اور انسان کے ساتھ زمین پر رہنے والی زندہ مخلوق کی حیات کے لیے مفید ہو۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: اور ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا۔ (سورۃ القمر)۔ مگر انسان نے زندگی کے وسائل کا اتنا بے دریغ استعمال کیا کہ کارخانہ قدرت نے نباتات و حیوانات اور بنیادی عناصر کے بیچ جو توازن قائم کیا تھا اس سے چھیڑ چھاڑ کر بیٹھا جس کے نتیجے میں فضا، پانی اور ماحول میں آلودگی پیدا ہو گئی اور اس آلودگی کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں وجود میں آئیں۔ جن سے نا صرف فطرت کا نقصان ہوا بلکہ جانوروں کی زندگی اور نسلیں بھی تباہ ہو گئیں، جس کی بدولت آج کارخانہِ قدرت کی پیداوار کے تحفظ اور بقا کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن دینِ اسلام نے صدیوں پہلے انسان کو ان حالات اور مسائل کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور ان کے تدارک کے اسباب بھی بتا دئیے تھے، جن پر انسان اگر اعتدال سے گامزن رہتا تو آج ہمیں ماحول کی آلودگی کے یہ دن نہیں دیکھنا پڑتے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سورج کی تمازت بڑھ رہی ہے، کرہ ارض پر اوزون کی تہہ میں سوراخ کی دریافت ہو چکی ہے۔ جنگلی و آبی حیات معدوم ہو رہی ہیں، جنگلات اور درخت ناپید ہو رہے ہیں۔

پُر آسائش زندگی گزارنے کی خواہش، سرمایہ دارانہ نظام کے ظلم اور صنعتکاروں کے حریفانہ اقدامات نے ماحولیاتی آلودگی کو اس نہج پر پہنچا دیا کہ نسلِ انسانی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ وولمیٹائل آرگینک کمپائونڈ کی باریک ذرات پر مشتمل بڑی تعداد میں جب صنعتوں، گاڑیوں اور کوڑا کرکٹ جلانے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ کے ذرات بھی شامل ہو جاتے ہیں اور پھر جب سورج کی کرنیں ان گیسوں اور ذرات پر پڑتی ہیں تو نتیجتاً یہ سموگ کی شکل اختیار کر کے فضا کو آلودہ کرتے ہیں۔ یہ سموگ انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات ڈالتے ہوئے سانس کی بیماریوں، برونکائٹس اور حتیٰ کے پھیپھڑوں کے کینسر کا سبب بنتی ہے۔ یہ ماحولیاتی مشکلات ایک دن کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ سالہا سال کی نا اہلی اور بد انتظامیوں کا نتیجہ ہیں۔ ماحولیات کا تحفظ اور قدرتی نظام توازن کو بحال کرنا آج کے انسان کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ حیوانات، آبی حیات، نباتات و اشجار ابتدائے آفرینش سے انسان کے ساتھی ہیں اور ان کی حفاظت کا اہتمام کرنا انسان کی ذمہ داری ہے۔ بنی آدم اس بات سے بخوبی آگاہ ہیںکہ زندگی کا انحصار ہوا، پانی اور غذا پر ہے ان میں سے کسی ایک کی بھی کمی زندگی کے خاتمے کا باعث بن سکتی ہے۔ شومئی قسمت کہ آج کے ترقی یافتہ اور سائنٹیفک دور میں حضرتِ انساں کو نہ تو صاف ہوا میسر ہے اور نہ ہی کھلی فضا۔ اس جدید ترین دور میں بھی انسان آلودہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال سوا لاکھ سے زیادہ افراد فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں کا شکار ہو کر انتقال کر جاتے ہیں۔ فضائی آلودگی کے مضر اثرات صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ یہ ماحول اور قدرتی نظام کو بھی بُری طرح متاثر کر رہی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان کا شمار ماحولیاتی آلودگی کے باعث نقصان اٹھانے والے دس سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے۔ شدید فضائی آلودگی اور سموگ کی وجہ سے پنجاب میں ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ ہے۔ اس قدر بدترین صورتحال کے باوجود حکومتِ وقت اب تک ایسی کوئی ٹھوس پالیسی پیش نہیں کر سکی جس کی بنا پر فضائی آلودگی اور سموگ کے مستقل تدارک اور جلد خاتمے کی امید کی جا سکے۔ حکومتِ وقت کی جانب سے بھارت میں فصلوں کی باقیات کے جلائے جانے کو فضائی آلودگی کا سبب قرار دیا جانا ہی اس بات کا اندازہ لگانے کو کافی ہے کہ حکومت ِ وقت سموگ کے اسباب سے کس حد تک واقفیت رکھتی ہے۔ یہ بات اگر مان بھی لی جائے کہ پنجاب کے شہروں اور اس کے نواحی علاقوں میں آلودگی کا ایک سبب بھارت ہے تو بھی یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ سموگ اور فضائی آلودگی کی روک تھام سے متعلق اقدامات کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ پاکستان آج ماحولیاتی آلودگی کے ایک ایسے بحران سے نبرد آزما ہے جو توجہ، افہام و تفہیم اور دیر پا حل کا متقاضی ہے۔ جس قدر تیزی سے ماحولیاتی آلودگی انسانی زندگیوں کو نگل رہی ہے اس کا مقابلہ اور خاتمہ کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ سموگ پر قابو پانے کے لیے ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر مختلف اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ انفرادی سطح پر بھی مختلف احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ حکومتی ادارے جتنے بھی متحرک ہو جائیں جب تک عوام اپنے اداروں کا ساتھ نہیں دیں گے اور اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کریں گے تب تک ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے کوئی بھی اقدامات اور انتظامات کامیاب نہیں ہو سکتے۔

تبصرے بند ہیں.