آج قدرت اور حکومت کی ملی جلی مہربانیوں سے وقفے وقفے سے اپنے بچوں کو سکول کالج کی لمبی لمبی چھٹیاں انجوائے کرتے دیکھتا ہوں تو حسد اور رشک کی ملی جلی کیفیت میں ’’کبھی کبھی میرے دل میں یہ خیال آتا ہے‘‘ یہ نامراد سموگ اور کرونا کی وبائیں اس وقت کہاں تھیں جب ہم اپنے بچپن میں گھر سے پوری طرح تیار ہو کر ہفتے میں چھ دن محض اپنے استادوں کی پھینٹی کھانے سکول جایا کرتے تھے۔ زندگی کے اتنے سال گزارنے کے بعد جب کبھی ماضی کے اس دورکی طرف دھیان جاتا ہے تو اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اُن دنوں ہمارا پڑھنا پڑھانا تو محض ایک بہانہ تھا، وگرنہ کیسی پڑھائی اور کہاں کی پڑھائی۔ ہمارا سکول جانا اگر سچ میں پڑھنے پڑھانے کے لیے ہوتا تو آج ہم پڑھ لکھ کر واقعتاً ایک بڑے آدمی نہ بن گئے ہوتے۔ اس دور میں سکول سے چھٹیوں کے لیے خود کو پیٹ درد، بخار، سکول بس کی اچانک خرابی اور استادوں کی وفات سے بھارت کے ساتھ جنگ تک کی کیا کیا دعائیں تھیں جو ہم نے نہ مانگی تھیں مگر سال بھر میں ایک آدھ بار پیٹ میں درد، بخار یا سکول بس کی خرابی کے سوا حرام ہے جو کبھی ہماری اصل ’’آہ‘‘ یا ’’دعا‘‘ قبول ہوئی ہو۔ آج کی طرح تب بھی ہم دل آزردہ ہو کر اکثر یہ سوچتے تھے ’’پتا نہیں وہ کون سے خوش قسمت لوگ ہیں جن کے لاکھوں کروڑوںکے پرائز بانڈ نکلتے ہیں‘‘۔ بقول شاعر ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا، اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا‘‘۔ خدا جانے اس نامراد ’’وصالِ یار‘‘ کو ہم سے کیا چڑ ہے کہ بچپن سے پچپن کی عمرمیں آ گئے ہیں مگر ہمارے ساتھ اس نے آج بھی پوری طرح ’’اڑی‘‘ لگائی ہوئی ہے۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ آپ وقت کے پہیے کو اُلٹا گھما کر اگر آج ہمارا بچپن واپس لا کے ہمیں پھر اُسی سکول میں داخل کرا دیں جہاں سے ہم نے مڈل تک ’’اعلیٰ تعلیم‘‘ حاصل کی تھی ہم پورے وثوق سے کہتے ہیںکہ سموگ یا کرونا جیسے یہ موذی امراض ختم ہوں یا نہ ہوں، ہم رہیں یا نہ رہیں نہ ہمارا سکول بند ہو گا نہ ہمیں چھٹیاں ملیں گی۔ حالانکہ جس دور کی ہم بات کر رہے ہیں سرکاری سکولوں میں چھٹیوں کے حوالے سے وہ ایسا سنہری اور آئیڈیل دور تھا جب اچھے اچھے سکولوں میں بھی دس بارہ میل کے علاقے میں ہلکی سی بارش یا کسی فوتگی کی اطلاع پر سکول میں چھٹی کی گھنٹی بج جاتی تھی۔ ملاحظہ کریں کہ اس ’’سستے‘‘ زمانے میں بھی واحد ایک ہمارا سکول تھا جہاں سوائے طالبعلم کی اپنی یا کسی استاد کی وفات کے بچوں کے لیے سکول سے چھٹی کرنا تو درکنار چھٹی کا سوچنا بھی ایسا قابل تعزیر جرم تھا جس پر ’’ملزم‘‘ کو چَھٹی کا ہی نہیں ’’چھُٹی‘‘ کا دودھ بھی یاد دلا دیا جاتا تھا۔ آج کے اس پڑھے لکھے اور ’’تہذیب یافتہ‘‘ دور میں جب کہ ملک بھر کے سرکاری و نجی سکولوں میں بحکم سرکار ’’مار نہیں پیار‘‘ کا قاعدہ رائج ہے اور استاد سے زیادہ طالبعلم کو عزت حاصل ہے شاید ہماری یہ باتیں آپ کو ناقابل یقین لگیں۔ اس لیے ہم یہاں یہ وضاحت کیے دیتے ہیں کہ ہم آج کی نہیں گذشتہ صدی میں اَسی کی دہائی کی بات کر رہے ہیں جو ممکنہ طور پر آپ کے لیے تو اَسی کی دہائی ہی ہے لیکن سکول میں ہمارے لیے خصوصی ہنگامہ پرور حالات کی وجہ سے ہمارے لیے یہ ’اَسی کی دُہائی‘‘ تھی۔ گویا ہماری شرارتوں اور نالائقیوں سے تنگ ہمارے والدین ہمیں سکول تعلیم حاصل کرنے نہیں ہم سے انتقام لینے کے لیے بھیجتے تھے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ہم اپنی بے سری آواز میں لتا کا گانا ’’میرا پردیسی نہ آیا‘‘ گانے کی پاداش میں ابرار ندیم کے بجائے سکول میں مروجہ روایات اور اپنے استاد محترم کی طرف سے دئیے گئے اعزازی نام کے مطابق ’’چھم چھم روئی‘‘ ہوتے تھے اور اپنے دیگر ہم جماعت وسیمو چبڑ، ناصر چھانگا، طاہر گٹکا، شاہد تیلا، بشیرا اِن ٹربل، غفارا مینگنی اور وقارو جنرل جیسے دوستوں کے ہمراہ پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کے ’’چکر‘‘ میں گھر والوں کے جور زبردستی پر روزانہ مرغا بننے سکول جایا کرتے تھے۔ سچ پوچھیں تو شروع شروع میں اپنے ہاتھوں اور ’’تشریف آوری‘‘ پر استادوں کی سوٹیاں کھانے سے ہمیں تکلیف کے ساتھ اچھی خاصی بے عزتی بھی محسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ہمیں اس ’’عزت افزائی‘‘ کی اس
قدر عادت ہو گئی کہ جس دن ہمیں سکول میں استادوں سے پھینٹی نہیں لگتی تھی اس رات بدن ایک عجیب بے چینی سے ٹوٹتا رہتا تھا ممکن ہے دوسری طرف ہمارے استادوں کو بھی یوں محسوس ہوتا ہو جیسے اُس دن اُن کی بھی ’’دیہاڑی‘‘ نہ لگی ہو۔ ہمارے استاد جس فراخ دلی سے ہم بچوں پر سوٹیوں کا استعمال کرتے تھے اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ہمیں بھولا ہوا سبق یاد آئے نہ آئے نانی ضرور یاد آ جاتی تھی گویا ہم سکول سبق یاد کر نے نہیں نانی یاد کرنے جاتے تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ’’سوٹیاں‘‘ جن سے ہم سب بچوں کی دھواں دھار ’’کلاس‘‘ ہوتی تھی اُن کی فراہمی کا انتظام بھی استادوں نے ہم بچوں کے سپرد کر رکھا تھا۔ جسے ہم سب استادوں کا حکم اور فرض سمجھ کر پوری ایمانداری سے نبھانے کی کوشش کرتے اور اپنی خاطر مدارت کے لیے درختوں سے خوب مضبوط اور موٹی موٹی سوٹیاں کاٹ کر لاتے تھے۔ آج بچپن کے دوستوں کے ہمراہ شوخیوں اور شرارتوں سے بھر پور سکول کے اُس ہنگامہ خیز زمانے کو گزرے ایک لمبا عرصہ ہو گیا ہے۔ انتہائی قلیل تنخواہ کے عوض والدین جیسے احساس اور جذبے کے ساتھ پورے جی جان سے ہماری تعلیم و تربیت کرنے والے ہمارے استادوں میں سے سوائے ایک آدھ کو چھوڑ کر اب اکثر استاد اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہیں۔گو اپنے استادوں کی اَن تھک محنت کے باوجود آج ہم اور ہمارے اکثر دوست اپنی نالائقیوں کے باعث دنیاداری کے تقاضوں کے عین مطابق ایک بڑے افسر مشہور صحافی، کامیاب تاجر اور اہم سیاستدان تو نہ بن سکے لیکن الحمدللہ ہمارے استادوں نے جس خلوص اور نیک نیتی سے تعلیم کے ساتھ ایک اچھا انسان بننے کے لیے ہماری تربیت کی اور ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے پیار، محبت، قربانی، ہمدردی، برداشت اور اچھائی کی شمع جلائی وہ اتنے برس گزرنے کے بعد جھوٹ، فریب اور مکر کے اس معاشرے میں آج بھی ہمارے سینوں میں اس کی کچھ نہ کچھ روشنی باقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی تنہائی میں بچپن کے دوستوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی شرارتوں اور سبق یاد نہ کرنے پر قابل احترام اساتذہ ملک افتخار صاحب، عبدالرزاق صاحب، قاری یعقوب شاکر صاحب اور ظفر صاحب کی پھینٹی یاد آتی ہے تو آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اور دل سے بے اختیار ان استادوں کے لیے دعا نکلتی ہے ’’یااللہ ہمارے استادوں کی خیر ہو‘‘۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.