پی آئی اے، بربادی کی المناک داستان

62

قومی ایئر لائن پی آئی اے جو کبھی اس قوم کا فخر تھی، ہر گزرتے دن کے ساتھ اب تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ اس کی کہانی طویل اور درد ناک ہے۔ پی آئی اے کی تباہی کی چند جھلکیاں اور قصے آج میں اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں کہ کس طرح سیاسی اثر و رسوخ، انتظامی نالائقی، نااہلی اور بدانتظامی نے اس ادارے کا بھٹہ بٹھا دیا۔آج یہ ادارہ اربوں روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ اس وقت قومی ائیرلائن کو ماہانہ 1.2 ارب روپے خسارے کا سامنا ہے جو سالانہ تقریباً 14.4 ارب روپے بنتا ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اب پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ بھی ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ واحد بولی دہندہ مقامی پراپرٹی ڈیلر کی جانب سے قومی ائیرلائن کے 60 فیصد حصص کیلئے صرف 10 ارب روپے کی حتمی قیمت لگانا قوم کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہی ہے۔ پی آئی اے جس کے ایک اثاثوں کی قیمت ہی سیکڑوں ارب سے زیادہ ہے اس کا مول کوڑیوں کے دام لگوا کر پی آئی اے کی جگ ہنسائی کی گئی ہے۔ نجکاری کمیشن کی نااہلی دیکھیں جس پی آئی اے کی نجکاری کیلئے ایک کنسلٹنٹ کو اربوں روپے فیس کی مد میں ادا کر دئیے گئے، اس ادارے کی نجکاری کیلئے کمیشن ایک بھی ڈھنگ کی کمپنی یا غیر ملکی سرمایہ کار کو راغب نہ کر سکا۔ نیو نیوز کے پروگرام مد مقابل کے تجزیہ کار اور معروف تحقیقاتی صحافی رؤف کلاسرا نے انکشاف کیا کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو اس لیے پی آئی اے کی خریداری کیلئے راغب نہیں کیا گیا کیونکہ بیوروکریسی کا خیال تھا کہ وہ منافع ڈالر کی شکل میں حاصل کریں گے۔ اگر کسی ملک کی بیوروکریسی کی یہ حالت ہو تو آپ خود اندازہ لگا لیں کہ پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ مطلب آئی پی پیز کو بغیر بجلی بنائے اگر ڈالر میں منافع دیا جا رہا ہے اور عوام کی رگوں سے خون نچوڑ کر اربوں روپے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں دئیے جا سکتے ہیں تو پھر جائز منافع ڈالر میں کیوں نہیں؟ حالات یہ ہیں کہ ان نالائقوں نے ملکی سرمایہ کار بھی وہ ڈھونڈا جو دراصل پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی ہی نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی ورلڈ بلیو کا اس شعبہ میں کوئی تجربہ ہے۔ اس نااہلی کے پیچھے بھی یقینا راز پوشیدہ ہے۔ ن لیگ اپنے دوسرے دور اقتدار میں بھی پی آئی اے کی نجکاری کا پلان اپنے سیاسی فائدے کی خاطر جان بوجھ کر فیل کر چکی ہے۔ 2015 میں جب آئی ایم ایف 6.2 ارب ڈالر قرض کے حصول کے لیے پی آئی اے کی نجکاری کی سخت شرط رکھی تو نواز شریف کی حکومت نے یہ شرط مان تو لی، مگرحکومت سیاسی ساکھ کھونے کے ڈر سے مشکل فیصلے لینے سے گریزاں تھی۔ لہٰذا نجکاری نہ ہو سکی حالانکہ 2015 میں قومی ایئرلائنز کی نجکاری کیلئے سرمایہ کاروں کو مدعو کرنے کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے ڈیڈ لائن
میں چھ ماہ کی توسیع بھی دی تھی۔ تاہم ن لیگ کی حکومت نیت ہی نہیں تھی۔ وہ نہ صرف عوام بلکہ آئی ایم ایف کو بھی دھوکہ دے رہی تھی۔ پی آئی اے کا خسارہ کم کرنے کے بجائے مزید ظلم یہ ہوا کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے پی آئی اے انتظامیہ کو پریمیئر سروس لانچ کرنے کی ہدایت کر دی ۔ جس کے بعد سری لنکن ائیرلائن سے ویٹ لیز پر 3 طیارے ائیر بس A330 ویٹ لیز پر حاصل کرنے کا معاہدہ کیا گیا۔ مالی مشکلات سے دو چار پی آئی اے کو معاہدہ کتنا بھاری پڑا یہ جان کر عوام کو اندازہ ہو گا کہ حکمران کس طرح شوبازی کی خاطر پورا اونٹ ذبج کر دیتے ہیں۔ لیز پر لیے گئے یہ طیارے اسلام آباد سے لندن پریمیئر سروس کے لیے استعمال ہوئے جس کا افتتاح 14 اگست 2016 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے کیا۔ معاہدے کے تحت لیز پر حاصل کردہ طیارہ روزانہ 11 گھنٹے کی پرواز کرے گا اور فی گھنٹہ ہر طیارے کے 8 ہزار 1 سو ڈالر ادا کیے جائیں گے۔ یہ ریٹ معمول کے عالمی ریٹ سے بہت زیادہ تھے کیونکہ اس وقت ایک طیارے کی ایک گھنٹہ پرواز پر ادائیگی کی شرح تقریباً 6 ہزار ڈالر تھی جبکہ ان طیاروں کی پروازوں پر سری لنکن عملہ کام کر رہا تھا۔ اس طرح ایک طیارے کی 11 گھنٹے کی پرواز پر پی آئی اے کو روزانہ 88 ہزار ڈالر خرچ کرنا پڑے۔ پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹر کو یہ جہاز اتنی مہنگی ویٹ لیز پر لینے پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پی آئی اے کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے ایسا کیوں کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ خسارے میں چلنے والی پی آئی اے یہ نئی شو بازی افورڈ کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ابتدائی طور پر پی آئی اے انتظامیہ نے 3 ماہ کے لیے طیارے لیز پر لیے تھے۔ ان 3 ماہ میں انتظامیہ کو نقصان کا اندازہ ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود سری لنکن طیارے واپس بھیجنے کے بجائے معاہدہ میں تین ماہ کی مزید توسیع کر دی گئی اور مکمل بربادی پھیرنے اور شدید مالی دباؤ کے بعد 2017 میں پی آئی اے نے سری لنکا کو طیارے واپس کیے۔ اسکے علاوہ سری لنکن ائیرلائن کو ائیر بس A330-300 کی اضافی پروازوں اور لیز کی قسطوں کی مد میں 20 لاکھ ڈالر کی ادائیگی بھی کی گئی۔ اس پریمیئر سروس پر پی آئی اے کو اربوں روپے کا خسارہ ہوا جس کا انکشاف پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایت پر 2006 سے 2016 تک لندن سٹیشن کی سپیشل آڈٹ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ سپیشل آڈٹ رپورٹ میں صرف لندن سٹیشن پر تعینات انتظامیہ کی غفلت اور بدانتظامی سے اربوں روپے کے خسارے کی کہانی بھی دنگ کر دینے والی ہے جس پر پھر کبھی بات ہو گی۔ اس آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسلام آباد سے لندن کے لیے پریمیئر سروس لانچ کرنے سے پی آئی اے کو 3 ارب روپے سے زائد کا نقصان اٹھانا پڑا جبکہ نقصان کے باوجود لیز کو بڑھایا گیا اور یوں نواز شریف کی ہدایت پر پریمیئر سروس پی آئی اے کے گلے پڑ گئی۔ مزید برآں، 2016 میں ہی پی آئی اے کے بوئنگ طیارے کے لاپتا ہونے کی کہانی سامنے آئی۔ اس طیارے کا معاملہ بھی کسی ہالی ووڈ کی سنسنی خیز فلم جیسا ہے۔ طیارے کا جب کوئی سراغ نہ ملا تو معاملہ سینیٹ میں پہنچ گیا۔ حکومت نے سینیٹ کو بتایا کہ ایئر لائن کے سی ای او برنڈ ہلڈن برینڈ پاکستان چھوڑتے وقت طیارہ اپنے گھر جرمنی لے گئے ہیں تاہم اس کا ڈراپ سین یہ ہوا کہ دسمبر 2016 میں ہوائی جہاز کو ایک برطانوی کمپنی نے مالٹا میں فلم کی شوٹنگ کیلئے تقریباً 1.6کروڑ روپے کے عوض چارٹر کیا تھا۔ تاہم غضب یہ ہوا کہ طیارے کو واپس لانے کے بجائے پی آئی اے کے اسی غیر ملکی سی ای او بریڈ ہلڈن برینڈ نے 22 کروڑ مالیت کے طیارے کو کوڑیوں کے مول 32 لاکھ روپے میں جرمنی کے میوزیم کو فروخت کر دیا۔ پی آئی اے کے ساتھ جو سوتیلے پن کا سلوک کیا گیا ہے اس پر کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ اب پی آئی اے کی خریداری کیلئے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے وزرا اعلیٰ کا نام بھی سامنے آ رہا ہے۔ اگرچہ ن لیگ نے اب خود کو اس خریداری سے الگ کر لیا ہے تاہم علی امین گنڈاپور پی آئی اے خریدنے کے لیے پُر عزم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے خریدیں گے چاہے جہاں تک بولی جائے۔ پی آئی اے کی بربادی میں تحریک انصاف کا بھی ہاتھ ہے جب 2019 میں وزیر ہوا بازی غلام سرور نے فلور آف دی ہاؤس پر کھڑے ہو کر ایسا غیر سنجیدہ بیان داغ دیا جس کے بعد پی آئی اے پر برطانیہ اور یورپ سمیت دیگر اہم ملکوں نے پابندی عائد کر دی۔ پائلٹوں کے جعلی لائسنس والا بیان بیرونی دنیا میں آگ کی طرح پھیل گیا جس پر انٹرنیشنل ائیر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے خطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے ایوی ایشن کی طرف سے لائسنسنگ کے معاملے کو سنگین غلطی قرار دیا۔ غلام سرور کے بیان سے پی آئی اے کو صرف 6 ماہ میں تقریباً 8 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ گنڈاپور اسے خرید کر کس طرح دوبارہ سے ایک عظیم الشان قومی ایئر لائن بنائیں گے۔ وہ کون سی گیدڑ سنگھی جو اب ان کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ پی آئی اے کی خریداری کیلئے ایک اوورسیز پاکستانی گروپ نے 100 ارب روپے کی آفر اور ساتھ میں 200 ارب سے زائد کا قرض بھی اپنے ذمہ لیا ہے۔ ماضی کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ایسی پیشکش جس میں ارباب اختیار کی ذاتی جیب خرچ کا کوئی سامان نہ ہو وہ ان کے دل کو نہیں بھاتی۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر پی آئی اے کی 10 ارب کی بولی لگوا کر سر عام مذاق بنوایا ہے تاکہ مستقبل میں چند ارب کے اضافے کے ساتھ اپنے ہی کسی فرنٹ مین کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر عوام کو جتلایا جائے کہ دیکھو ہم نے ایک سفید ہاتھی کو ٹھکانے لگا کر کتنا احسان عظیم کیا ہے۔

تبصرے بند ہیں.