عظیم فیصلے کا انتظار کیجئے

52

محض اتفاق ہی مان لیجئے ماہ نومبر میں ایک روز ایسا بھی تھا جب صدر پاکستان آصف علی زرداری دوبئی میں تھے، بتایا گیا پائوں میں چوٹ کے سبب آرام کر رہے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف خلیجی ملک کے دورے پر تھے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر سعودی عرب کے دورے پر تھے۔ وزیراعلیٰ پنجاب برطانیہ عازم ہوئیں ان سے پہلے جناب نواز شریف لندن اور امریکہ کے نجی دورے پر تھے، گویا گھر مکمل طور پر خالی تھا، کوئی کنڈی کھڑکانے والا تھا نہ ہی سیدھا اندر آنے والا، جس طرح اہم شخصیات اپنے ا پنے شیڈول کے مطابق ملک سے باہر دوروں پر گئیں اسی طرح ان کی واپسی ہو رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن سب سے آخر میں ملک سے باہر گئے یوں انہوں نے باہر جانے والوں میں اپوزیشن کی نمائندگی کی۔ وہ عرصہ دراز سے بلوچستان کے دورے پر نہیں گئے جہاں ان کے سیاسی ہمنوا اور جماعت کے کارکن ان کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ’’یقین رکھیں کوئی لندن پلان نہیں بن رہا‘‘ جو ہو گا امریکہ میں ہو گا۔ ماہ نومبر میں امریکی انتخابات اپنے انجام کو پہنچے، دنیا کو اب ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس پہنچ کر اپنے لائحہ عمل کے اعلان کا انتظار ہے جو اب کوئی راز نہیں بیشتر باتیں وہ اپنی الیکشن مہم میں بتا گئے ہیں، کچھ جمع تفریق کے بعد اس ایجنڈے پر عمل شروع ہو گا جسے امریکی پالیسی کہتے ہیں۔ ٹرمپ جو اپنی سیاسی شناخت بنا چکے ہیں اسی حوالے سے زیر بحث ہیں۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے لاابالی طبیعت، تند خو، اچانک غیر متوقع فیصلے کرنے والا، دوستوں اور دشمنوں کے درمیان واضح لکیر کھینچنے اور اس سے آگے قدم نہ بڑھانے والا ٹرمپ اب بھی وہی طرزعمل جاری رکھے گا یا دنیا ایک مختلف ٹرمپ دیکھے گی تو اس کا سیدھا سا جواب ہے وہ عمر کے اس حصے میں ہے جہاں پرانی عادتیں ترک نہیں کی جا سکتیں اور نئی باتیں زندگی کا حصہ نہیں بنائی جا سکتیں لیکن ایک بات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جن فیصلوں نے ٹرمپ کو پہلے زمانہ صدارت میں نقصان پہنچایا ہے وہ ان حوالوں سے پھونک پھونک کر قدم اٹھائیں گے۔ اسے غلطیوں سے سیکھنا کہتے ہیں جس کا تمام دنیا میں رواج ہے صرف پاکستان میں نہیں۔
ٹرمپ کی پالیسی اسرائیل اور یہودیوں کے بارے میں بدلنے کا کوئی امکان نہیں، چین کے وہ مقروض ہیں ان کی تجارت چین کے ساتھ کم نہیں ہوگی بڑھے گی، اس کی بڑی وجہ چین کے ہاتھ میں دنیا کی وسیع مارکیٹ ہے، اس کی تیار کردہ روزمرہ استعمال کی اشیاء سستی ہیں، اب ان کا معیار بہتر ہو گیا ہے جبکہ امریکہ اس حوالے سے جو کچھ تیار کرتا ہے وہ مہنگا ہے۔ دوئم امریکہ اب کنزیومر گڈز کے حوالے سے چین پر انحصار کرنے پر مجبور ہے کیونکہ اس کی اپنی یعنی امریکی لیبر بہت مہنگی ہو چکی ہے۔ امریکہ کی معیشت کا انحصار سامان جنگ، بھاری اسلحہ، بھاری مشینری، آئی ٹی سامان، طب کے شعبے میں ہونے والی ایجادات پر ہے جبکہ امریکی سرمایہ داروں کا ایک حصہ نئی بیماریاں پھیلانے پھر ان کی ویکسین تیار کرنے اور اس حوالے سے موت کا خوف فروخت کرکے بعدازاں اپنی ادویات فروخت کرنے میں آج بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ پوری دنیا کو خوف مفت میں مہیا کیا جاتا ہے جبکہ موت سے بچائو کی ادویات مہنگے داموں دی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے کرونا ایک کامیاب تجربہ ثابت ہوا۔ اندازہ کیجئے کرونا سے مرنے والوں کا پوسٹمارٹم کرنے کی کسی کو اجازت نہ تھی ، کوئی وجوہات جان سکے اور بعدازاں اس کی ویکسین کے ٹیسٹ کی بھی اجازت نہ تھی کہ جانا جا سکے اس کے اجزاء کیا ہیں۔ امریکہ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی اجازت کے بغیر سر پھرے ملکوں نے اس کا تجزیہ اپنی لیبارٹریوں میں کرایا تو معلوم ہوا صرف پانی تھا یہ پانی اسی طرح بیچا گیا جس طرح ہمارے یہاں ڈبہ پیر حضرات اپنے یہاں آنے والے مریضوں کو تعویز دیتے ہیں جسے اکثر اوقات کھول کر دیکھا گیا تو وہ ’’کورا کاغذ‘‘ نکلا، ایک مرید ایسا ہی تعویز کھول کر دیکھنے کے بعد پیر صاحب کے پاس آیا اور اس نے کہا پیر صاحب کاغذ پر تو کچھ بھی نہیں لکھا، کہیں غلطی سے کاغذ تبدیل تو نہیں ہو گیا۔ پیر صاحب نے جواب دیا ہاں جنات ایسا کر سکتے ہیں، یہ سن کرمرید دوسرے پیر صاحب کے آستانے پر پہنچ گیا جو جنات کو قابو کرنے کے حوالے سے خاص شہرت رکھتے تھے۔ میڈیکل کے حوالے سے اسے ’’سیکنڈ اوپینین‘‘ لینا کہتے ہیں جو اب میڈیکل کے علاوہ ہر شعبہ زندگی میں رواج پا رہا ہے، خصوصاً عدالتی فیصلوں کے حوالے سے دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ایک جگہ سے ملزم کو ایک سو دس برس کی قید سنائی جاتی ہے، اگلے مرحلے پر وہ باعزت بری ہو جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب جیتنے کے بعد پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد انہیں اپنی امیدوں کا مرکز بنائے ہوئے ہے۔ اگر یہ امیدیں پوری نہ ہوئیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں ٹرمپ کی سفارش اور مداخلت پر رہائی منظور نہیں، ہم کسی بیرونی مداخلت پر یقین نہیں رکھتے۔ یاد رہے امریکی صدر کبھی براہ راست کسی کے معاملے میں کبھی مداخلت نہیں کرتا، اس نیک کام کے لئے اس کے پاس ایک بڑی ٹیم موجود ہوتی ہے۔ وہ مداخلت کا جواز فراہم کرتی ہے اور ایجنڈے پر عمل درآمد کا طریقہ کار تجویز کرتی ہے۔ اگر کہیں کوئی کمی رہ جائے تو اسے پورا کرنے کے لئے اقوام متحدہ کا ادارہ موجود ہے۔ وہ اپنی مہر لگانے کے بعد عراق پر حملے کو جائز قرار دیتا ہے۔ سوڈان کی تقسیم کو انصاف قرار دیتا ہے۔ فلسطین میں ہونے والی نسل کشی سے لاتعلق رہتا ہے اور افغانستان کے وسائل پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے آخری حد تک جاتے ہوئے ایک دہائی تک وہاں موجود رہتا ہے۔

پاکستان کے معاملات میں امریکی مداخلت درجنوں مرتبہ ہوئی ہے۔ یہ ہمیشہ نظریہ ضرورت کے مطابق ہوئی ہے، اس کی طرف سے جب کسی خواہش کا اظہار ہو جائے تو اس کی خواہش کو پورا کرنے والے راستے تلاش کر لیتے ہیں پھر اس کی خواہش کو پورا کرنے کے بعد ایک نیا بیانیہ دیتے ہیں جسے حق اور سچ ثابت کرنے کیلئے ایک نظام موجود ہے جو اس فیصلے کو پاکستان اس کی بقا اس کی فلاح اور اس کی معیشت میں استحکام لانے کے حوالے سے رائے عامہ ہموار کرتا ہے اور اسے ’’عظیم فیصلہ‘‘ ثابت کرتا ہے، عظیم فیصلے کا انتظار کیجئے۔

تبصرے بند ہیں.