جیت اسے کہتے ہیں !

87

جب بھی امریکا میں انتظامی تبدیلی آتی ہے تو پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے وجہ اس کی یہی ہے کہ وہ ایک انتہائی طاقتور ملک ہے جو چاہتا ہے کہ ہر کوئی اس کے مطابق چلے مگر سو فیصد ایسا نہیں ہے اس کے مقابل دوسری بڑی طاقتیں اپنے اپنے نظام کے تحت ہی امور مملکت سر انجام دیتی ہیں اور دیں گی جبکہ بہت سے ترقی پذیر و ترقی یافتہ ممالک ہمیشہ امریکا کی پالیسیوں سے اتفاق کرتے آئے ہیں اب جب ڈونلڈ ٹرمپ جیت گئے ہیں اور انہوں نے ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیا ہے کہ وہ جنگوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ان میں خوشی کہ لہر دوڑ گئی ہے۔ ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور میں بھی جنگی ماحول پیدا نہیں ہونے دیا تھا اسی لئے ہی وہ اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئے ہیں مگر ان کے سیاسی مخالفین کو ان کی یہ پالیسی ناگوار گزری ہے کیونکہ وہ پوری دنیا کو حالت جنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے مقاصد پورے ہوتے رہیں ان کا اسلحہ فروخت ہوتا رہے لہٰذا انہوں نے کئی محاذ کھولے اور تباہ کن ہتھیار بیچے جہاں جنگ نہیں ہوئی وہاں انہوں نے عوام پر ستموں کے پہاڑ توڑے۔ ان کی امنگوں اور جذبات کو کوئی اہمیت نہیں دی اور ایسے اقدامات کیے جو ان کے لئے سوہان روح بن گئے لہٰذا وہ شکست فاش سے دوچار ہوئے۔

ہمارے ہاں بھی سیاسی حالات بد سے بدتر پیدا ہوئے جس میں وقت گزرنے کے ساتھ اضافہ ہوتا گیا اب جب ٹرمپ بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو گئے ہیں اور انہوں نے امن شانتی کا نعرہ لگایا ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ پہلے والی صورت حال نہیں رہے گی۔ ظاہر ہے ان کی پالیسیاں قطعی مختلف ہیں لہٰذا پاکستان میں بھی سیاسی ماحول تبدیل ہو گا۔ اگرچہ حکومتی سیاستدان کہتے ہیں کہ کسی ملک کو ہمارے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے مگر یہ محض بیان ہی ہے کیونکہ ماضی بعید و قریب میں سب ہی واشنگٹن کے در دولت پر حاضری دیتے رہے ہیں اور اس وقت تک دیتے رہیں گے جب تک ان کے دل میں عوام کی محبت اور ملک کو خوشحال بنانے کی تڑپ پیدا نہیں ہو جاتی لہٰذا یہ کہنا کہ اس کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے لوگوں کو بیوقوف بنانے والی بات ہے اور یہ تاثر دینا مقصود ہے کہ ہم آزاد ہیں خود مختار ہیں اگر ایسا ہے تو اب تک کے ادوار میں جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہاں حکومتیں اسی کی آشیر باد سے قائم ہوئیں جب اس کا ان سے دل بھر گیا تو اس نے ان کے سر سے اپنا شفقت بھرا ہاتھ اوپر اٹھا لیا۔
بہرحال امریکی سیاسی جماعتوں کی سیاست کاری بڑی دلچسپ ہے کہ ایک جماعت کسی ملک کی کمر توڑتی ہے تو دوسری اسے جوڑنے آجاتی ہے اور ایسا وہ اپنے ملکی و قومی مفاد کے لئے کرتی ہیں یعنی دونوں پارٹیاں ایک ہی نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کیے رکھتی ہیں اور وہ کسی صورت ا سے نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتیں۔ اس کے پیش نظر ہی جو بائیڈن حکومت نے اپنے دور میں جس جس کو رگڑا دینا تھا دیا‘ اس کی معاشی حالت کو کمزور یا بھول بھلیاں میں ڈالنا تھا ‘ ڈالا۔اب ڈونلڈ ٹرمپ بالکل اس کے بر عکس اپنی پالیسیوں کا اعلان کر رہے ہیں کیونکہ اب ان کی ہی ضرورت ہو گی مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آئندہ کی سیاست میں امریکا کوئی تبدیلی لانے جا رہا ہو کیونکہ اب وہاں کے عوام کی بھی سوچ تبدیل ہو چکی ہے وہ لگا تار جنگوں اور سرمایہ داری نظام کے ہاتھوں گھائل ہو چکے ہیں ان کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے مگر طبقہ اشرافیہ اور امیر ہو گیا ہے اس نے دولت کے انبار لگا لئے ہیں وہ طبقہ‘ عوام کو ہمیشہ کے لئے سرنگوں دیکھنا چاہتا ہے مگر ٹرمپ روایتی سوچ سے کنارہ کش ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ان کے بارے میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ فرسودہ نظام حکمرانی و ریاستی مشینری کو مات دے کر ایک نیا پروگرام متعارف کرانے جا رہے ہیں جس میں سر فہرست دنیا میں امن کا قیام ہے تاکہ جنگوں پر خرچ ہونے والے سرمائے کو عوام کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال میں لایا جا سکے۔ ان کا یہ پروگرام اپنے ملک کے لئے ہی نہیں دوسروں کے لئے بھی ہے لہٰذا انہیں ٹرمپ کی پالیسیاں قابل قبول ہیں اور وہ خوشی کا بر ملا اظہار کر رہے ہیں یعنی ٹرمپ ایک ایسے نظام کی طرف قدم بڑھانا چاہ رہے ہیں جو غربت افلاس اور بھوک کے خاتمے کی ضمانت دیتا ہو یہ اسلحہ کی دکانیں سجانے والوں کے لئے واضح پیغام ہے لہٰذا جنگی ہتھیار بنانے والوں کو شاید اب انسانی ضروریات سے متعلق فیکٹریاں بھی بنانا پڑیں گی؟۔

اب آتے ہیں ٹرمپ کی کامیابی سے پاکستان کی سیاست پر پڑنے والے اثرات کی طرف۔ ان کی کامیابی سے ہماری سیاست کا متاثر ہونا کوئی اچنبھا نہیں ہو گا اور اسے ایک نیا رخ اختیار کرنا ہو گا کیونکہ ابھی تک ہمارا شمار محکوموں اور جدید غلاموں میں ہوتا ہے پھر ہم اس کے ذیلی ادارے آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر اپنی معیشت کی گاڑی چلا رہے ہیں اس میں اگر وہ شرائط کی صورت کوئی رکاوٹ ڈالتا ہے تو ہماری معاشی حالت اوندھے منہ گرجاتی ہے اس وقت بھی اس کی حالت ڈانواں ڈول ہے لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو کر رہے گا کچھ کچھ تبدیل ہونے بھی لگا ہے اور جو بدلے گا وہ پی ٹی آئی کیلئے سْود مند ثابت ہو گا کیونکہ ٹرمپ نے عمران خان کو اپنا دوست کہا ہے۔ ویسے بھی ان کے سیاسی حالات مِلتے جْلتے ہیں۔بعض تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر موجودہ حکومت نے اسے وفاداری کی پکی یقین دہانی کرا دی تو پھر پی ٹی آئی یہ کہتی ہوئی نظر آئے گی کہ ’’ہم رہے پیاسے کے پیاسے لاکھ ساون آگئے‘‘ مگر تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ ان کی ذہنی کیفیت کو اچھی طرح جانتا ہے اور پھر وہ روایتی طرز سیاست سے ذرا ہٹ کر سیاسی میدان میں اترا ہے لہذا وہ عمران خان کے علاوہ کسی اور پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں مگر ہم مکرر عرض کریں گے کہ موجودہ سیاست کاری درست نہیں ہمیں اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے جس کیلئے سب کو ایک پلیٹ فارم پر کھڑا ہونا پڑے گا اس کے بغیر ملک خوشحال نہیں ہو سکے گا صرف یہی نہیں ہمیں اپنی پالیسیاں بھی خود بنانا ہوں گی بالخصوص خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین نئے سرے سے کرنا ہو گا !۔

تبصرے بند ہیں.