قرض کی مَے

59

اِس میںکوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی معاشی اعشارئیے مثبت رجحان کی نشاندہی کررہے ہیںاور عالمی سرویزکے مطابق معیشت پٹری پرچڑھتی نظر آتی ہے۔ مہنگائی میںبھی ایک حدتک کمی دکھائی دیتی ہے۔ حقیقت مگریہ کہ تاحال مہنگائی کے عفریت پرمکمل قابو نہیں پایا جاسکا۔ وجہ یہ کہ نئے پاکستان کے بانی نے اپنے 3سال 8ماہ کے دَورِحکومت میںبڑھتی معیشت کوعشروں پیچھے دھکیلنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیںکیا اور جب اُسے یقین ہوگیا کہ اُس کی حکومت کاخاتمہ قریب ہے تواُس نے آمدہ حکومت کی راہوں میں کانٹے بچھانے میںبھی کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ مقصد اُس کامحض یہ تھاکہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے ایک دفعہ پھر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوسکے، قوم جائے بھاڑ میں۔ یہی وجہ ہے کہ بھوکوں مرتی قوم تاحال سُکھ کاسانس لے سکی نہ معیشت کاپہیہ پوری رفتار سے گھوم سکا۔ حکمرانوں کی کاوشیں بجا مگرہم وہ قوم ہیںجو IMFسے ’’قرض کی مے‘‘ پی کرتاحال عالمِ مدہوشی میں ’’سب اچھا‘‘ سمجھ رہی ہے حالاکہ ایساہے نہیں۔ اگر چین، سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ممالک کے قرضے ری شیڈول نہ ہوتے اورIMF کے قرضے کی قسط نہ ملتی تو پاکستان بانی پی ٹی آئی کی خواہش کے مطابق سری لنکا بن چکاہوتا۔ موجودہ وزیرِدفاع خواجہ آصف نے پچھلی 16ماہ کی اتحادی حکومت میں باربار کہاکہ درحقیقت پاکستان ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ لاریب یہ حکومت کی کاوشوں کا ثمرہے کہ ہم ڈیفالٹ سے بچے ہوئے ہیں۔ چاہیے تویہ تھاکہ پوری قوم اور حکومتی ادارے چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتے لیکن بدقسمتی سے ’’وہی ہے چال بے ڈھنگی جوپہلے تھی وہ اب بھی ہے‘‘ اور اِس میں حکومت بھی برابرکی شریک ہے۔

اِس کڑے وقت میںجب ہم پی آئی اے اور دیگر ادارے بیچنے کی تگ ودَو میںہیں، حکمرانوں نے 129ویں نمبرپر براجمان سپریم کورٹ کے جسٹس صاحبان کے الاؤنسز میں محیرالعقول اضافہ کردیا ہے۔ جولائی 2023ء میں چیف جسٹس پاکستان کی تنخواہ میں 2لاکھ 4ہزار 864روپے اضافہ کیا جس کے بعد اُن کی تنخواہ 12لاکھ 29ہزار ہوگئی۔ سپریم کورٹ کے دیگر ججوں کی تنخواہوں میں بھی 20فیصد اضافہ کیا گیا۔ جس کے بعد ایک جج کی تنخواہ 11لاکھ 61ہزار روپے ہوگئی۔ 7نومبر 24ء کو سپریم کورٹ کے ججوں کاہاؤس رینٹ 68ہزار سے بڑھاکر 3لاکھ 50ہزار روپے اور جوڈیشل الاؤنس 3لاکھ 42ہزار سے بڑھاکر 10لاکھ 90ہزار کردیا گیاہے۔ گویا ہاؤس رینٹ میں 5گُنا اور جوڈیشل الاؤنس میں 3گُنا اضافہ کیاگیا۔ ماہانہ تنخواہ کے علاوہ ججوں کو سرکاری گھر یاہاؤس رینٹ ملتاہے جس میں استعمال ہونے والی بجلی، گیس، پانی اور ٹیلی فون کابِل بھی حکومت اداکرتی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کوسرکاری گاڑی اور ماہانہ 4سو لٹر پٹرول بھی ملتاہے۔ مزیدبرآں اُن کی تنخواہ کوانکم ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے۔ سرکاری ڈرائیور، پروٹوکول اور روزمرہ اخراجات کے لیے الاؤنس اِس کے علاوہ ہے۔ اِس لحاظ سے سپریم کورٹ کے ایک جج پر ماہانہ 20لاکھ روپے سے زائد صرف ہوتے ہیں۔ اِس وقت سپریم کورٹ میں 17ججز ہیںجبکہ حکومت اِن کی تعداد 34 کررہی ہے۔

ایک غریب ملک جس میں لوئرگریڈ کے ایک شخص کی ماہانہ تنخواہ 40ہزار روپے کرکے حکومت گویا حاتم طائی کی قبرپر لات ماررہی ہے جبکہ اُس بیچارے کو ہوش رُبا مہنگائی، پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ناقابلِ یقین یوٹیلیٹی بِلزکا سامنا ہے وہاں یہ تفاوت، چہ معنی دارد۔ کیایہ عامی اللہ کی مخلوق نہیں؟۔ کیااِن کے ساتھ ایساپیٹ ہے جسے بھوک نہیں لگتی؟۔ کیا اِن بلوں کی ادائیگی کے بعداُن کی آتشِ شکم کی سیری ہوسکتی ہے؟۔ حیرت ہے کہ ایک طرف تو ’’قاضیوں ‘‘کے لیے زندگی کی ہرنعمت کاحصول ممکن بنایا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف نانِ جویںکے محتاجوں کے لیے مراعات کی کوئی گنجائش نہیں۔ اگریہ سبھی کیڑے مکوڑے ہیں توپھر ہرپانچ سال بعد ہمارے بزعمِ خویش رَہنماء اِن کے گھروں پرووٹوں کی بھیک مانگتے کیوں نظر آتے ہیں؟۔ پورے پاکستان کے سارے ججزکی تعداد مِل کرشاید قومی اسمبلی کے 2رُکن بھی منتخب نہ کرسکتے ہوں۔ پھریہ کیسی جمہوریت ہے جس میں عامی تولگ بھگ 3سو ارکانِ اسمبلی منتخب کریں لیکن بھوکوں مریں۔ ہم نے تویہی سُن رکھاہے کہ جمہوریت نام ہے عوام کی حکومت، عوام کے لیے اور عوام پر۔

سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے نومنتخب صدرمیاں رؤف عطاء نے کہا ’’یہ ایک غریب اور مقروض ملک کے ساتھ زیادتی ہے۔ ججز ایک دانشور طبقہ ہوتاہے اور پہلے ہی اُن کوکافی ساری چیزیں فری ہوتی ہیںتو اُنہیں خودہی انکار کردینا چاہیے‘‘۔ اینکر غریدہ فاروقی نے ایکس پرلکھا ’’اِس ملک میںیہ عجیب مذاق ہے، غریب کے پاس کھانے کوکچھ نہیں، مڈل کلاس کی تنخواہیں نہیں بڑھتیں، ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے، قابل نوجوانوں کے پاس روزگار نہیںمگر تقریباََ ہرسال ججوں کی تنخواہوں اور مراعات میںلاکھوں کااضافہ ہوتا چلاجاتا ہے۔ کسی میںتو اتنی اخلاقی جرأت ہونی چاہیے کہ لاکھوں کے اضافے سے انکار کردے‘‘۔ نہ جانے کیوں مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس محترم قاضی فائزعیسیٰ اگر اپنی مدت ملازمت پوری نہ کرچکے ہوتے تووہ یہ مراعات لینے سے صاف انکار کردیتے لیکن انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ ’’اِن تِلوں میں تیل نہیں‘‘۔ حقیقت یہ کہ اسلامی ریاست میںقاضی کامنصب سب سے زیادہ قابلِ احترام ہوتاہے لیکن یہ منصب پیسہ بنانے کی بجائے ثواب کمانے کاذریعہ ہوتاہے۔ اِس لیے معاشی بدحالی کے شکارملک وحکومت پریہ بوجھ ناقابلِ برداشت ہے۔ ہمارے انتہائی معزز جج صاحبان یہ توجانتے ہی ہوںگے کہ اُن کے ہاؤس رینٹ میں اضافہ 95فیصد تنخواہ داروں کی تنخواہ سے بھی زیادہ ہے۔

عدل کے اونچے ایوانوں میں بیٹھے انتہائی محترم جسٹس صاحبان ہم سے کہیں بہتر جانتے ہیں کہ دینِ مبیں کی عمارت ہی عدل وانصاف پرکھڑی ہے۔ قُرآنِ مجید فرقانِ حمیدمیں جگہ جگہ عدل وانصاف کاحکم دیاگیا ہے۔ سورۃ النساء آیت 135میں فرما دیاگیا ’’اے ایمان والو! انصاف کے علمبردار اور خُداواسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زَدخود تمہاری اپنی ذات پر یاتمہارے والدین اور رشتہ داروں پرہی کیوںنہ پڑتی ہو، فریقِ معاملہ خواہ مالدار ہویا غریب اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے، اِس لیے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میںعدل سے باز نہ رہواور اگرتم نے لگی لپٹی بات کہی یاسچائی سے پہلو بچایا تو جان لوکہ جوکچھ تم کرتے ہو اللہ کو اُس کی خبر ہے‘‘۔ اگر طبع نازک پرگراں نہ گزرے تو انتہائی ادب سے گزارش ہے کہ ہمارے ہاں تو عادل بھی گروہوں میں بَٹ چکے۔ سُناتو یہی تھاکہ عادل خود نہیں بولتے اُن کے فیصلے بولتے ہیںلیکن یہاں معاملہ اُلٹ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں معیارِ عدل 129ویں نمبر پر۔

تبصرے بند ہیں.