عجیب بات ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیتا تو امریکہ کا الیکشن ہے لیکن ااس کے انتخاب نے مصیبت ہمارے سیاستدانوں کو ڈال دی ہے۔ مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا بانی چیئرمین سے لے کر انتہائی نچلی قیادت تک یہ مسئلہ رہا ہے کہ یہ بغیر سوچے سمجھے کوئی نا کوئی بیان داغ تو دیتے ہیں اور بعد میں اس کی وضاحتیں تلاش کرتے پھرتے ہیں ۔ اسی قسم کے رویے کی وجہ سے بعض مخالفین نے عمران خان کو یوٹرن خان کا نام بھی دے دیا تھا۔ مزے کی بات ہے کہ یہ لوگ اس صورتحال پر شرمندہ ہونے کی بجائے اپنی اس حرکت کی توضیحات پیش کرنا شروع ہو جاتے ہیں اور مزید الجھائو کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں۔
ویسے تو ان کی سیاسی قلابازیوں کا ایک لمبا چوڑا ریکارڈ ہے لیکن اگر صرف تازہ ترین صورتحال کی بات کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کل تک یہ لوگ ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم ہوجانے والی اپنی حکومت کی تمام تر ذمہ داری براہ راست امریکہ پر ڈال رہے تھے۔ پھر ایک یو ٹرن لیا اور جنرل باجوہ کو اس کا ذمہ دار قرار دے دیا، اس کے بعد ایک اور یو ٹرن لیا اور شہباز شریف اور آصف زرداری کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا دیا اور پھر اپنی حکومت سے چھٹی کی تمام تر ذمہ داری محسن نقوی پر ڈال دی۔ ابھی الزام تراشیوں کا یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد درپیش صورتحال کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ بیانیہ بنایا گیا کہ حکومت جو مرضی کرتی رہے اعلیٰ عدلیہ ہماری مدد کو آ جائے گی۔ جب ایسا کچھ بھی نہ ہوا تو سوشل میڈیا کے ذریعے اس قسم کی باتیں وائرل کی گئیں کہ آرمی اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے ہو گئے ہیں اور بانی چیئرمین صاحب جلد ہی جیل سے باہر ہوں گے، جب اس قسم کی خبریں بھی دم توڑنے لگیں تو دعویٰ کر ڈالا کہ ہم تو شہر شہر بھر پور مظاہرے کریں گے اور جیل توڑ کر عمران خان کو جیل سے نکال لیں گے یہاں بھی منہ کی کھانی پڑی تو قسمت سے امریکہ کا الیکشن آ گیا۔
اس موقع پر یہ تاثر دیا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ تو عمران خان کے ذاتی دوست ہیں اوراگر وہ منتخب ہو گئے تو جو پہلے چند کام وہ کریں گے ان میں سے ایک عمران خان کی جیل سے رہائی کو یقینی بنانا ہو گا۔ قسمت سے ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن بھی جیت گئے۔ اب ہمارے پی ٹی آئی کے دوستوں کے لیے ایک نئی مصیبت کھڑی ہو گئی ہے۔ اگر تو وہ اپنے پہلے بیانیے پر کھڑے رہتے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ، جس قسم کا ان کا مزاج ہے، ان کی کوئی مدد نہیں کرتے تو اچھی خاصی بے عزتی سی ہو جائے گی۔ اور اگر وہ واقعی ان کے بیانیے کے مطابق کوئی ایکشن کردیتے ہیں تو نا صرف ساری عمر کے لیے امریکی سپورٹ اور چمچہ گیری کا لیبل لگ جائے گا ، بلکہ مخالفین ہر محفل اور ہر مباحثے میں امریکی مداخلت کے ان کے دونوں بیانیوں کو حوالہ دے دے کر ان کی مت ہی مار دیں گے۔ تیسری اور سب سے اہم بات جس نے ان کو بری طرح سے پھنسا کر رکھ دیا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کی مبینہ مداخلت کے اعلان کے بعد اگر کسی سطح پر حقیقی معنوں میں بھی مسٹر عمران خان کو کوئی ریلیف مل جاتا ہے تو لوگ بالخصوص ان کے سیاسی مخالفین اسے قانونی فیصلہ نہیں مانیں گے بلکہ اسے امریکہ کی پاکستان کے اندونی مداخلت ہی قرار دیتے رہیں گے جس سے یقینی طور پر انہیں بے پناہ سیاسی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حماقتوں کے مقابلہ میں حکومتی پارٹی بھی پی ٹی آئی سے کسی بھی طور پیچھے رہ جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ حکومتی پارٹی کے ارکان بھی ان تمام بے پر کی باتوں پر بھرپور ردعمل دیتے ہیںجو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے لوگ وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے صدر کے پاس شائد کبھی بھی اتنی فرصت نہ ہو کہ وہ پاکستان کی جیل میں بند ایک قیدی، چاہے وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، کو رہا کروانے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے۔ امریکہ صدر نے اگر ایسا کوئی کام کرنا بھی ہوتا ہے تو کسی نچلے سے بھی نچلے درجے کے اہلکار کے ذریعے کروایا جا تا ہے۔
ہمارے بھولے حکومتی ارکان، جو جانے کس بنیاد پر ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کے لیے بھیج دیے جاتے ہی، اتنی معمولی سی بات بھی نا سمجھ سکے اور پی ٹی آئی کی جانب سے کیے جانے والے ٹرمپ کی غیر معمولی حمائت کے دعووں کے ردعمل کے طور پر صورتحال کو مینج کرنے کے بجائے بعض مواقع پر ایک متوقع امریکی صدر کی مخالفت میں بیان داغ دیے۔
بالفرض ڈونلڈ ٹرمپ سے متعلق پی ٹی آئی قیادت کے دعوے درست ہیں تو بھی ٹرمپ کسی بھی ایکشن سے پہلے اتنا تو ضرور سوچیں گے کہ ان کا اس قسم کا قدم بیک فائر نہ کر جائے اور ان کی اس حرکت سے ان کی ساکھ کو نا صرف بین الاقوامی سطح پر بلکہ قومی سطح پر بھی نقصان پہنچے۔ بین الاقوامی تعلقات اکثر باہمی احترام اور گفت و شنید کے اصول پر چلتے ہیں۔ بالفرض کوئی امریکی صدر ، کسی بھی وجہ سے،کسی دوسرے ملک کے قانونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ ملک بھی جواب میں امریکی حکومت سے اسی قسم کے اقدامات کا مطالبہ کر ڈالے۔یعنی اگر ٹرمپ عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں تو پاکستان کا بھی پورا حق ہو گا کہ وہ جواب میں عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کر دے۔
جلد بازی یا مقامی سیاق و سباق کو سمجھے بغیر کام کرنا سفارتی غلطیوں یا غیر متوقع نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ انتہائی اہم ہے کہ ایک امریکی صدر نہ صرف فرد کی حالتِ زار بلکہ وسیع تر جغرافیائی سیاسی ماحول کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اس طرح کے حالات میں باریک بینی اور احتیاط کے ساتھ رجوع کرے۔ صدر کی طرف سے کیے گئے ہر فیصلے میں بین الاقوامی تعلقات پر ممکنہ طویل مدتی اثرات کے ساتھ ساتھ خطے کے استحکام اور سلامتی کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔
اس گلوبل ولیج میں کسی بھی ملک کو کمزور یا تنہا جاننا انتہائی غلطی ہو گی ،سو کسی بھی سربراہ مملکت کا کردار مختلف قسم کے چیلنجوں کو دانشمندی اور دور اندیشی کے ساتھ نیویگیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہونا چاہیے کہ اس کی جانب سے اٹھایا گیا کوئی بھی قدم اس کے لیے یا اس کی قوم کے لیے شرمندگی کا باعث نہ بن جائے۔
تبصرے بند ہیں.