سموگ یا موت

625

 

یہ جو لاہور سے محبت ہے
یہ کسی اور سے محبت ہے
لاہور پاکستان میں علم وادب کا گہوارا، سیاسی تحریکوں کا مرکز، باشعور اور حساس انسانوں کا شہر سمجھا جاتا ہے۔ زندگی کی علامت کہلانے والے اس شہر پرموت کے گہرے سائے منڈلا رہے ہیں۔ اس مریض محبت کا مرض بڑھتا جا رہا ہے۔ جب کسی چھوٹے شہر میں مریض کا علاج ممکن نہ ہو تو میڈیکل لائن میں یہ بڑا مشہور مقولہ ہے کہ ’اینے نئیں بچنا اینوں لاہور لے جا¶‘۔ لیکن موجودہ سموگ کے باعث لاہور کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ لوگ زندہ بھاگنے میں عافیت تصور کررہے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی پالیسی انسٹیٹیوٹ نے لاہور کے ماحولیاتی اثرات پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ لاہوریوں کے لئے یہ بری خبر ہے کہ سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے باعث یہاں بسنے والے ہرشخص کی زندگی میں پانچ سے سات برس کی کمی واقع ہو رہی ہے۔ ہمارے پالیسی ساز اداروں میں بیٹھے افراد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مسائل کو سطحی انداز میں دیکھتے ہیں۔ لاہور میں سموگ کامسئلہ خاص طور پر دوہزار چھ سے سر اٹھا چکا تھا۔ ہم نے ان اٹھارہ برسوں میں سموگ کو پال کر اتنا بڑا کر دیا ہے کہ اب یہ ایک راکشس بن کر زندگیاں نگلنا (سلوڈیتھ) شروع ہوگیا ہے۔ اس دوران پنجاب میں مسلم لیگ ق، مسلم لیگ ن(دو مرتبہ)، تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی شریک اقتدار رہیں۔ سب لاہور پردعویداری کا حق جتاتے ہیں۔ الیکشن کے دنوں میں نعرہ لگایا جاتا ہے کہ لاہور کس
کا؟ کیایہ نعرہ صرف ووٹ اور اقتدار کے لئے ہوتا ہے یا اس میں واقعی لاہور کی شادابی اور حقیقی ترقی کا عنصر بھی پنہاں ہوتا ہے۔ تواس کاجواب آج لاہورکے ابر پر چھائی سموگ ہے۔ ایک سگریٹ کے ذریعے تقریبا 50 ائر کوالٹی انڈیکس کے برابر پلوشن سموکر سانس کے ذریعے اندر لے کر جاتا ہے۔ جبکہ کہ لاہورکا موجودہ اے کیو آئی انڈیکس400 کراس کر چکا ہے۔ یعنی اس وقت لاہور کی فضا میں سانس لینے کا مطلب 8 سگریٹوں کا اکٹھا کش لگانے کے مترادف ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے سموگ کو لے کر جن اقدامات کا اعلان کیا گیا ان کا تعلق شارٹ ٹرم پالیسی سے ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اکتوبر کا مہینہ آتے ہی سموگ شروع ہو جائے گی۔ اکتوبر سے دسمبر تک حکومت،میڈیا اور ماحولیاتی این جی اوزخوب شور مچائیں گے۔ لیکن باقی نو ماہ کسی کو یاد بھی نہیں رہے گا۔ سونے پر سہاگہ پنجاب حکومت نے سموگ کی بڑی وجہ بھارت میں فصلوں کو جلانے سے پیدا ہونے والے دھوئیں کو قرار دے کر شاید اپنے کندھوں سے ذمہ داری اتار دی ہے۔ ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارت سے بات کئے بغیر مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ لیکن کیا اس پر کوئی فوری سنجیدہ مذاکرات کی حکمت عملی بنا کر بات چیت شروع کی گئی؟ جواب ہے نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم مسائل کی جڑ کو سمجھنے کی بجائے سطحی تشخیص کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہمیں من حیث القوم زندگی کے ہر شعبے میں ڈنگ ٹپا¶ پالیسی ترک کرنا ہو گی۔ یہ ایسے ہی ہے کہ اگر جنگل میں کسی شخص کو سانپ کاٹ لے اور وہ اس زہر سے نمٹنے کی بجائے، سانپ کی پیچھے بھاگنا شروع کر دے۔ حالانکہ اصل مسئلہ تو زندگی بچانا ہے نہ کہ سانپ پکڑنا۔ ہمیں اس زہر آلود فضا کی وجوہات اور اسے پاک کرنے کے طریقے سوچنا ہیں۔ جبکہ ہم ہر سال محدود نوعیت کے اقدامات کے ذریعے سموگ کی شدت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا اس طرح یہ عفریت ٹل جائے گا؟ ڈیٹا کے مطابق 43 فیصد فضائی آلودگی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے سلنسرز اور 30 فی صد بڑے کارخانوں کی چمنیوں سے پیدا ہو رہی ہے۔ کیا حکومت ایک پالیسی کے تحت یورو فائیو پٹرول سے نچلے گریڈ کے فیول پر پابندی عائد نہیں کرسکتی؟ الیکٹرک وہیکل پالیسی بن چکی ہے جس کے مطابق 2030 تک سڑکوں پرچلنے والی 30 فیصد گاڑیاں الیکٹرک ہوں گی۔ لیکن اس پر ابھی تک خاطر خواہ عملدرآمد شروع نہیں ہو سکا۔ کارخانوں کی چمنیوں سے نکلنے والا دھواں اور ندی نالوں میں گرنے والے زہریلے مادوں سے زمین اور فضا دونوں ہی آلودہ ہو رہے ہیں۔ حکومت ان فیکٹری مالکان سے کاربن فری پلانٹس لگوانے پر عملدرآمد کیوں نہیں کرا سکی؟ کیا امر مانع ہے؟۔ بادی النظر میں مفادات کا تصادم پالیسی پرعملدرآمدکی راہ میں رکاوٹ ہے۔ 2018 میں سابقہ حکومت سموگ پالیسی بناکر گئی تھی لیکن آج تک عملدرآمد نہیں ہوا۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ انسانوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ عین ممکن ہے کہ سخت حالات اور ماحول میں رہنے کی وجہ سے غریب آدمی کی قوت مدافعت زیادہ ہو۔ اصل بات یہ ہے پانی چھڑکنے یا سکول ہفتے میں چار دن بند کرنے سے کیا سموگ کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ حکومت کو زراعت، صنعت، وہیکل پالیسی، اینٹوں کے بھٹوں پر صاف ٹیکنالوجی پر سخت عملدرآمد کے ساتھ شہرکو مزید کنکریٹ کا جنگل بننے سے روکنا ہو گا۔ گرین لاہور مہم کے ذریعے کروڑوں درخت لگانے ہوں گے۔ ورنہ حالات مزید مخدوش تر ہو سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.