امریکہ میں ہوئے صدارتی الیکشن میں ری پبلکن پارٹی کا امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کامیابی حاصل کر کے ایک مرتبہ پھر صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا حلف اٹھائے گا۔ ٹرمپ کا پچھلا صدارتی دور تنازعات کا شکار رہا اور اس دفعہ بھی اپنی انتخابی مہم کے دوران جہاں اس نے اپنے عوام کو کئی سبز باغ دکھائے وہیں اس نے کئی تنازعات بھی کھڑے کر دیئے۔ وقت ثابت کرے گا کہ وہ کس حد تک اپنی زبان پہ قائم رہتا ہے اور اپنے انتخابی وعدوں کی پاسداری کرتا ہے۔ امریکہ چونکہ ایک سپر پاور ہے اس لیے اس کے صدر کو دنیا کا طاقتور ترین انسان بھی سمجھا جاتا ہے اور دنیا میں امن قائم رکھنے کی ذمہ داری بھی اس پہ ہی عائد ہوتی ہے۔ اس لیے ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم میں دنیا کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے بھی کئی تجاویز پیش کیں۔ جن میں بیشتر متنازع اور کچھ موجودہ حالات کے مطابق ناقابل عمل دکھائی دیں۔ اس نے دنیا میں جنگیں ختم کرانے کا عہد کیا لیکن دوسری طرف وہ اسرائیل کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم اور نہتے فلسطینیوں کی نسل کشی پہ ناصرف خاموش رہا بلکہ اس کی پشت پناہی کرتا دکھائی دیا۔ جہاں تک امریکہ اور اس کے دنیا کے ساتھ تعلقات کی بات ہے وہیں ٹرمپ کی سربراہی میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ٹرمپ کے پچھلے دور صدارت میں اس کی ہٹ دھرمی، جھوٹ پہ مبنی پراپیگنڈہ اور ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کو نظر انداز کرنے پہ دونوں ممالک کے تعلقات خوشگوار نہ رہ سکے تھے۔ لیکن کیا اس دفعہ ٹرمپ کے رویے میں کچھ تبدیلی آئے گی؟ تو یقینا کہا جا سکتا ہے کہ اس کے رویے میں کسی بھی حیرت انگیز تبدیلی کی دور دور تک توقع کبھی تھی اور نہ ہی ہو گی۔ یاد رہے کہ ٹرمپ کے پچھلے دور میں پاکستانی حکومت پہ دباؤ ڈال کر سی پیک کو بند کرا دیا گیا تھا، امریکی منشا سے مقبوضہ کشمیر کو ہندوستان نے اپنا حصہ بنا لیا تھا اور پاکستان کو احتجاج کی اجازت بھی نہ دی گئی تھی۔ پاکستان کی امداد روک دی گئی تھی۔ ٹرمپ نے براہ راست پاکستانی حکومتوں پہ الزام تراشی کی تھی کہ وہ امریکہ سے اربوں ڈالر امداد لے کر اس کے ساتھ ہی دوغلی پالیسی رکھتی اور امریکی مفادات کے برعکس کام کرتی ہیں۔ صرف اسرائیلی خواہش پہ پاکستان پہ دباؤ بڑھایا گیا تھا کہ وہ نا صرف اپنا نیوکلیئر پروگرام روک دے بلکہ اپنے شاہین 3 میزائل کی رینج بھی کم کرے۔ یہ بات بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ جغرافیائی لحاظ سے پاکستان دنیا کے اس خطے میں واقع ہے کہ جہاں امریکہ چاہ کر بھی اس کی اہمیت کو جھٹلا نہیں سکتا۔ پاکستان امریکہ کے علاہ دنیا کی دوسری بڑی طاقتوں روس اور چین کی ہمسائیگی میں ہے اور اس کا ہر عمل، ہر فیصلہ اپنے خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو مد نظر رکھ کر ہونا چاہیے۔ اب نہ تو ٹرمپ کے اس دور صدارت میں حالات مختلف ہوتے نظر آ رہے ہیں اور نہ ہی کسی انقلابی سوچ کے تحت امریکی صدر پاکستانی حکمرانوں کو اپنے سر پہ بٹھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ بلکہ اس سب کے بر عکس ٹرمپ ایک دفعہ پھر کوشش کرے گا کہ وہ پاکستان کو چین اور روس سے دور اور نئے ابھرتے ہوئے اکنامک بلاک سے الگ رکھ سکے۔ وہ چاہے گا کہ پاکستان کی ابھرتی اکانومی ایک دفعہ پھر امریکی مرہون منت ہو اور اس کی گرفت میں رہے۔ وہ چاہے گا کہ پاکستان بھی دیگر ممالک کی طرح نا صرف اسرائیل کو تسلیم کرے بلکہ خطے میں ہندوستانی اثر و رسوخ کے تابع بھی رہے۔ وہ چاہے گا کہ کسی بھی طرح پاکستان دفاعی اور مالی لحاظ سے اس قدر مستحکم نا ہو کہ وہ اپنے فیصلے آزادانہ طور پہ لے سکے۔ وہ چاہے گا کہ پاکستان افغانستان میں الجھا رہے اور امریکی مفادات کا تحفظ کرتا رہے۔ تو کیا یہ سب پاکستان کو کرنا چاہیے؟ جواب ہے بالکل نہیں۔ پاکستان کو اب دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔ پاکستان کو چین اور روس کے بلاک میں رہنا ہو گا۔ کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کے ہر کڑے وقت میں جس طرح چین نے آگے بڑھ کر مدد کی ہے اور بڑے بھائی کا کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کے لیے اس سے زیادہ کسی کی اہمیت نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستان کو برکس میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرنی چاہیے اور نئے ابھرتے ہوئے اکنامک بلاک سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ یاد رہے کہ آزاد اور خود مختار قومیں ہمیشہ اپنے فیصلے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر کرتی ہیں اور یہی فارمولا اب پاکستان کو اپنانا ہو گا۔ دوسری طرف ایک پاکستانی سیاسی جماعت جس کا بانی مختلف کرپشن کیسز میں سزا یافتہ ہو کر جیل میں ہے وہ دعوے دار ہیں کہ جونہی ٹرمپ آئیگا وہ سب سے پہلے ان کے لیڈر کی رہائی کیلئے دباؤ ڈالے گا۔ کیونکہ یہ وہی لیڈر ہے جس کی امریکہ میں موجودگی کے دوران ٹرمپ نے اسے بتایا تھا کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر ہڑپ کرنے لگا ہے اور آپ نے اس پہ احتجاج بھی نہیں کرنا اور ایسا ہی کیا گیا۔ سو نہ چاہتے ہوئے بھی ٹرمپ کے دل میں اس کے لیے کہیں نرم گوشہ ہو سکتا ہے لیکن کیا پاکستان امریکہ کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت دے گا؟ امید ہے کہ اب ایسا نہیں ہو گا۔ اور پاکستانی حکومت تمام تر پریشر برداشت کر کے ملکی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے آزادانہ فیصلے کرے گی۔ دوسری طرف نو منتخب امریکی صدر کے پاس بھی اتنا وقت نہ ہو گا کہ وہ کسی بھی شخص کے لیے اس حد تک جائے کہ دو طرفہ تعلقات کو ہی داؤ پہ لگا دے۔ لہٰذا پی ٹی آئی لیڈر کی رہائی کا خواب دیکھنے والوں سے گزارش ہے کہ ٹرمپ سے زیادہ امید نا رکھیں کیونکہ اس دفعہ پاکستان اور پاکستانی حکومت اپنے مفادات کا بھرپور تحفظ کرے گی اور ٹرمپ ایڈمنسٹریشن اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ گردانتے ہوئے اس سے دور رہے گی۔ آخر میں آنے والی ٹرمپ ایڈمنسٹریشن سے بھی درخواست ہو گی کہ اگر وہ حقیقت میں دنیا کو ایک محفوظ سیارہ بنانا چاہتی ہے تو اسے بھی اس دفعہ اپنا طرز عمل بدلنا ہو گا۔ اسے بھی بلا تفریق اسرائیل سمیت تمام دیگر جنگ زدہ علاقوں میں حملہ آوروں کو روکنا ہو گا۔ اسے رنگ، نسل، مذہب، پسند نا پسند کی بنیاد پہ اچھے برے کی تمیز ختم کرنا ہو گی۔ ورنہ دنیا نے نا تو ٹرمپ پہ پہلے اعتبار کیا تھا اور نا ہی اب کرے گی۔ اس لیے ٹرمپ کو بھی سپر پاور کا لیڈر ہونے کے ناتے اس دفعہ اپنے عمل سے ثابت کرنا ہو گا کہ وہ امریکہ اور امریکی عوام سمیت تمام دنیا کی بھلائی چاہتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.