پاکستان کی ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے دیر سے ہونے والے اصلاحات ملک کے روشن مستقبل کے لیے ایک اہم قدم ہیں اور ملکی معیشت کو کامیاب بنانے کی کلید ہیں۔ ان کی نجکاری یا حکومت کے تحت رکھے جانے کا فیصلہ بعد میں ہونا چاہیے۔پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی ناکام نجکاری کی کوشش نے یہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان اب ملک کی ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوںکی ناقص کارکردگی برداشت نہیں کر سکتا، نہ ہی انہیں سستے داموں نجی شعبے کو فروخت کر سکتا ہے۔پی آئی اے کی نجکاری کی ناکام کوشش کے بعد اب ہمارے سیاستدان جو صرف بیانات کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ،پی آئی اے پر اپنی تجاویز پیش کرنے لگے ہیں،سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے تو یہ کہہ دیا کہ پی آئی اے کو پنجاب حکومت خرید لے جبکہ مہاجر قومی موومنٹ کے سربراہ آفاق احمد کا کہنا تھا کہ پی آئی اے مہاجروں کا دیا گیا تحفہ ہے اس لئے پی آئی اے کو فروخت کرنے کے بجائے مہاجر صنعتکاروں کے حوالے کردیا جائے جو اسے2سال میں منافع بخش بناکر دکھا دیں گے۔مزید کئی سیاستدانوں کے تبصرے بھی سامنے آئے ہیں لیکن عملاً آگے بڑھنے کو کوئی تیار نہیں بلکہ اس اہم ادارے کو اونے پونے دام خریدنے کی کوشش کی جارہی ہے۔پاکستان کے اسٹیٹ بینک کی سالانہ رپورٹ FY24 میں کہا گیا ہے کہ ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں کے لیے بیل آؤٹ پیکجز اور سبسڈیز آٹھ سال (FY16 سے FY23) میں 5.7 ٹریلین روپے، یعنی جی ڈی پی کا 1.4فیصد، تک پہنچ چکی ہیں۔ یہ مالی امداد بنیادی طور پر بجلی، بنیادی ڈھانچے، نقل و حمل، اور معلومات و مواصلات کے شعبوں میں دی گئی ہے، جس نے حکومت پر مالی بوجھ میں اضافہ کیا ہے۔پی آئی اے، پاکستان ریلو ے اور قومی ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) ہمیشہ بحث کا موضوع رہتے ہیں۔ ان نقصان اٹھانے والی کمپنیوں کے مالی وسائل اتنے زیادہ ہیں کہ وہ ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں جیسے کہ سٹیٹ بینک، تیل اور گیس کی تلاش کرنے والی کمپنیوں (E&P) اور پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے منافع کو ختم کر دیتے ہیں۔حکومت پر بڑھتا ہوا مالی بوجھ ایک مضبوط اصلاحات کی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے، جس کی حالیہ آغاز حکمران اتحادنے کیا ہے۔ ماضی میں کئی بار اصلاحات شروع کی گئیں لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔حکومت کو مضبوط ارادے کے ساتھ کام کرنا ہوگا اور ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومتوں کو پاکستان کی ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں کو سیاسی حامیوں کے لیے روزگار کے ذرائع کے طور پر استعمال کرنا بند کرنا چاہیے، اور ملازمتیں میرٹ پر فراہم کی جانی چاہئیں۔پاکستان کی ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں میں بدعنوانی ختم کرنے کی بھی اہم ضرورت ہے۔ دو بڑی تبدیلیاں یہ ہیں کہ ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں میں ایماندار قیادت کو مقرر کیا جائے اور ان کے بورڈ میں نجی شعبے کے پیشہ ور افراد شامل کیے جائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں کو پیشہ ورانہ طور پر منظم کرنے کے لیے عوامی-نجی شراکت داری قائم کی جائے۔ مزید اصلاحات جیسے شفافیت، جوابدہی، عملے کی تربیت اور ٹیکنالوجی کی اپ ڈیٹس ایماندار قیادت کی پیداوار ہیں اور حکومت کا سیاسی مداخلت کو ختم کرنا ضروری ہے۔ہزاروں ملازمتوں کو ختم کرنا اور پاکستان سٹیل ملز کو بند کرنا، جو 2008 تک منافع بخش تھا، قوم کی اجتماعی ناکامی کی نمائندگی کرتا ہے۔ صرف ملازمتوں کی تعداد کم کرنا ایک قابل عمل حل نہیں ہے۔ایران نے اپنی سٹیل کمپلیکس کی پیداوار کی صلاحیت کو دوگنا کر دیا ہے، جو 1970 کی دہائی میں پاکستان کے سٹیل ملز کے ساتھ قائم کی گئی تھی۔وفاقی حکومت کی رائٹ سائزنگ پالیسی کے تحت پاکستان پوسٹ میں گریڈ ایک تا 15 کی مزید 1511 پوسٹوں کو ختم کر دیا گیا،سوال یہ ہے کہ پاکستان پوسٹ آفس کو 2020 میں مکمل مالیاتی ادارے میں تبدیل کرنے کی تجویز کا کیا ہوا؟ اس تجویز پر عمل کرنے کے بجائے 2000 پوسٹوں کو ختم کیا گیا، اب تک مجموعی طور پر ادارے سے 3616 پوسٹیں ختم کی جا چکی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ ختم کی جا نے والی تمام آسامیاں خالی تھیں اور ان میں سب سے بڑی تعداد پوسٹمین سکیل 7 کی 500 پوسٹس، میل پیون/ پورٹرز سکیل 2 کی 458، اور پوسٹل کلرکس ا سکیل 9 کی 274 ‘گریڈ 14میں اے ایس پی او کی8‘ گریڈ 14 پوسٹ اکائو نٹنٹ کی ایک ‘ گریڈ 11میں ہیڈ کلرک کی 4،گریڈ 9 میں سارٹر کی 29‘ ٹائم سکیل کلرک کی 30‘ ہیڈ پوسٹ مین کی ایک ‘ کیش اوورسیر کی 19‘ میل اووریئر کی 15‘ اوورسیئر کی10، سٹو ر کیپر کی 2،سارٹنگ پوسٹ مین کی ایک ‘یو ایم ایس ڈیلیوری ایجنٹ ایک ‘ ایف ایم فٹر ‘الیکٹرک مستری اور ٹیکنیشن کی ایک ایک ‘ وائر مین‘ الیکٹر ک وائر مین اور ٹریولنگ میل پین کی ایک ایک،اسٹیمپ وینڈر کی 56‘ایف ایم فٹر اور ریکارڈ سپلائر کی ایک ایک ‘پورٹر کی 102‘میل پین 356‘ میل رنر39‘ رنر24‘پیکر32 پوسٹ شامل ہیں۔ایک اور مصدقہ اطلاع یہ بھی ہے کہ وفاقی حکومت نے کفایت شعاری کا یہ اقدام اور رائٹ سائزنگ پالیسی تحت وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں اور ان کے محکموں میں گریڈ ایک سے 22تک کی 4816پوسٹوں کو ختم اور 1954پوسٹوں کو متروک قرار دیدیا گیاہے اور مجموعی طور پر 6770پوسٹیں ختم کی گئی ہیں۔ حالانکہ حکمران اپنے اخراجات کو کم یا ختم کرکے ملک کے بہتر مفاد میں ان پوسٹوں پر ان نوجوانوں کو بھرتی کرتے جو مایوس ہوکر ملک سے باہر جارہے ہیں،یہ وہ نوجوان ہیں جو ہمارے ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں اور ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز،آئی ٹی ایکسپرٹ،شیف اور دیگر شعبے کے ماہر نوجوان شامل ہیں، اس طرح ملک میں ہزاروں ملازمتوں کا خاتمہ بے روزگاری کی شرح میں اضافہ کیا جارہا ہے اور اس عمل سے نوجوانوں میں مزید مایوسی پھیل رہی ہے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ آسٹریلیا،یو کے، جرمنی، آئرلینڈ، کینیڈا،امریکا اور دیگر ممالک میں بہتر روزگار کی تلاش میں نوجوان پاکستان سے بوریا بستر سمیٹ کر جارہے ہیں اور روزگار نہ ملنے کے سبب نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے۔ادھر نجی شعبے کی کمپنیاں جیسے اینگرو فرٹیلائزر، لکی سیمنٹ، اور ماری پیٹرولیم نئے کاروبار میں متنوع ہو رہی ہیں۔ اس کے برعکس، ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیاںکیوں نئے کاروبار میں داخل نہیں ہو رہی ہیں، جیسا کہ پی ایس اونے ایل این جی مارکیٹنگ میں کیا؟اسکا جواب ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں میں فیصلہ سازی کے تھکے ہوئے عمل میں ہے، جو سیاسی مداخلت سے منسلک ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جامع رپورٹ بتاتی ہے کہ ملکیت کی تبدیلی کے ذریعے نجکاری عالمی سطح پر سب سے عام اصلاحاتی حکمت عملی رہی ہے، لیکن شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مسابقتی بازار، شفافیت، نگرانی، مؤثر ریگولیشن، شعبہ جاتی پالیسی اصلاحات اور اچھی کارپوریٹ گورننس، ملکیت کی تبدیلیوں سے زیادہ اہم ہیں۔درحقیقت، ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں نجکاری ناکام ہوئی یا اس کے نتیجے میں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ اس کے ساتھ، دنیا کی کچھ بڑی کمپنیاں ریاستی کنٹرول کے تحت رہتی ہیں، اور ابھرتی ہوئی مارکیٹس اور ترقی پذیر معیشتوں کے ذریعے پاکستان کی ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کا ایک نمایاں رجحان بھی موجود ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجودتحقیق یہ تجویز کرتی ہے کہ ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں میں اصلاحات، جو 1980 کی دہائی میں شروع ہوئیں اور 1990 کی دہائی میں عروج پر پہنچیں، زیادہ تر ممالک اور خطوں میں 2000 کی دہائی کے اوائل تک مکمل ہو گئیں۔ تاہم کچھ ممالک بشمول پاکستان میں ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیوں میںاصلاحات ابھی تک ایک نامکمل ایجنڈا ہیں۔مالی سال 23 کے آخر تک پاکستان میں 121 وفاقی ملکیتی پاکستان کی ناکارہ ریاستی ملکیت کی کمپنیاں تھیں، جن میں سے 73فیصد تجارتی اور باقی غیر تجارتی تھیں، جو مختلف قسم کی شعبہ جاتی ترقی کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔
تبصرے بند ہیں.