پیر چار اکتوبر کو حکومت نے قومی اسمبلی اور سینٹ سے متعدد بل پاس کرا کر قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی سے دستخط بھی کرا لئے جس کے بعد وہ سب قانون بن چکے ہیں ۔ چالاکیاں اور مکاریاں اور وہ بھی تیسرے درجہ کی ایک حد تک ہی چلتی ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ تحریک انصاف کی جو مختصر سیاسی تاریخ ہے اسے اٹھا کر دیکھ لیں تو بڑا واضح نظر آئے گا کہ انھوں نے جو کچھ بھی کیا وہ اپنے زور بازو پر نہیں بلکہ سہولت کاروں کے بل پر کیا ۔ 2014 کے دھرنوں کی مثال سب کے سامنے ہے ۔ اس وقت کسی جگہ ہنگامہ آرائی یا ہنگامی حالات نہیں تھے لیکن کیا ہوا تھا کہ تحریک انصاف نے علامہ طاہر القادری کی عوامی تحریک کے ساتھ مل کر لاہور سے ایک لانگ مارچ کیا اور اسلام آباد ڈی چوک پر جا کر دھرنا دے دیا ۔ اول تو اس وقت حکومت اگر چاہتی تو لانگ مارچ ہی شاید راوی پل کراس نہ کر پاتا اور اگر وہ اسلام آباد پہنچ بھی جاتا تو چند دن بعد دھرنے کے حالات یہ ہو چکے تھے کہ دن میں وہاں پر مکمل خاموشی اور ویرانی کا راج ہوتا تھا اور قائدین بھی اپنے اپنے گھروں میں جا کر آرام کر رہے ہوتے تھے لیکن شام ڈھلے ڈھائی تین سو افراد دھرنے کی جگہ پہنچ جاتے اور اب یہ بات بھی میڈیا پر آ چکی ہے کہ اوپر سے حکم تھا کہ اس قلیل تعداد کو ہزاروں میں دکھانا ہے اور کیمرے کے کمالات سے جو بھی واقف ہے اسے بخوبی علم ہو گا کہ ایسا کرنا کچھ مشکل نہیں تو اتنی کم تعداد میں لوگوں کو منتشر کرنا کسی بھی حکومت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہوتا لیکن احتجاج کرنا ہر کسی کا بنیادی جمہوری حق ہے اس بات کی آڑ میں کہا گیا بلکہ زیادہ بہتر الفاظ یہ ہوں گے کہ حکم دیا گیا کہ ان پر طاقت کا استعمال نہیں کرنا خیر وہ دھرنا پروگرام جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ 126 دن تک چلتا رہا لیکن اس پوری تفصیل جو پہلے ہی سب کے علم میں ہے اسے دوبارہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دوران ہر روز یہ کہہ کر اپنے فین کلب اور ہم خیال صحافیوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا کہ بس ایمپائر کی انگلی اٹھنے ہی والی ہے اب جیسا کہ عرض کیا کہ پورے ملک میں امن تھا نہ کوئی جلسہ نہ کسی تحریک کے آثار تھے لیکن سہولت کاروں کی آشیر باد سے ایک بہترین طریقہ ڈھونڈا گیا تھا کہ بس ایک جتھہ لے کر اسلام آباد پر چڑھائی کر دو اور پھر وزیراعظم سے استعفیٰ اور اسمبلیوں کو تحلیل کرا کر حکومت کا دھڑن تختہ کر دو۔ اس وقت یہ پلان تھا اور میڈیا میں بھی یہ بات کہی جا رہی تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی جس پلڑے میں اپنا وزن ڈال دے گی وہی پلڑا جھک جائے گا لیکن اس وقت زرداری صاحب نے بڑی عقل کی بات کی تھی کہ اگر اس طرح جتھے آ کر حکومت بدلنے کی روایت پڑ گئی تو پھر پاکستان میں تو اس طرح کے جتھے لانے کی سب سے زیادہ صلاحیت تو انتہا پسند مذہبی گروہوں میں ہے اور اس طرح اس وقت دھرنا سازش کو ناکام بنایا گیا لیکن اس پورے قصے میں کسی ایک جگہ بھی تحریک انصاف کسی کامیاب تحریک کی بنیاد پر نہیں بلکہ سہولت کاروں کی آشیر باد کے ذریعے چالاکیوں کے دم پر ملک میں نام نہاد تبدیلی لانا چاہتی تھی ۔
2018 میں بھی مقبولیت کے تمام تر دعووں محکمہ زراعت کے تعاون اور جہانگیر ترین کے ہیلی کاپٹر کی شٹل سروس کے باوجود بھی وفاق اور نہ پنجاب میں سادہ اکثریت حاصل کر سکی اور نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں جگہ اتحادیوں کے ساتھ حکومت بنانا پڑی سہولت کاری کی مدد سے سیاست کرنے کی عادت ختم نہیں ہوئی بلکہ اب تک جاری و ساری ہے اور آپ غور کریں کہ بلند و بانگ دعوے یہ کئے جا رہے ہیں کہ یہ فارم 47 کی حکومت ہے اور عوامی کی اکثریت کی حمایت ہمارے ساتھ ہے لیکن جب ہر احتجاج کی کال ناکام ہو گئی تو کبھی کسان کے احتجاج کے ساتھ کھڑے ہو گئے کبھی ایک فیک نیوز کو سوشل میڈیا پر وائرل کر کے طلباء تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی کبھی وکلاء تحریک سے امیدیں وابستہ کی گئیں اور اب خیر سے لطیف کھوسہ نے ٹرمپ سے امیدیں لگا لی ہیں لیکن یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اپنے زور بازو کے بجائے سہولت کاروں کے بل پر جو سیاست کی جا رہی تھی اور جس طرح چالاکیوں سے کام لے کر حکومت کی راہ میں روڑے اٹکائے جا رہے تھے تو پھر چالاکیاں تو سب کو آتی ہیں اور حکومت نے قانون سازی کر کے بتا دیا کہ ہم احمق نہیں ہیں ہمیں بھی پتا تھا کہ کہاں کہاں سے کس کس طرح سہولت کاری ہو رہی ہے لہٰذا اس قانون سازی سے کوشش کی گئی ہے کہ سہولت کاری کے سارے در بند کر دیئے جائیں یا انھیں بے اثر کر دیا جائے ۔
پارلیمنٹ میں قانون سازی کے دوران تحریک انصاف شور شرابا اور ہنگامہ آرائی کرتی رہی ۔ کاش تحریک انصاف یہ سب کرنے کے بجائے اگر ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرتی تو عین ممکن ہے کہ اس قانون سازی میں کچھ اس کے مطابق بھی ہو جاتا لیکن بہرحال جو قانون سازی کی گئی ان میں مسلح افواج کے سربراہوں کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی گئی سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 تھی جو بڑھا کر 34 کر دی گئی ہے پہلے یہی کہا جا رہا تھا کہ تعداد 23 کی جائے گی لیکن حکومت میں بیٹھے لوگ پاگل نہیں ہیں انھیں اس بات کا علم تھا کہ انھی ججز میں سے آئینی بنچز کے ججز کا تقرر بھی ہونا ہے لہٰذا اس نے ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ تعداد کی ہے اور بندیال صاحب کے دور میں جو فل کورٹ کی مخالفت کرتے تھے لیکن آج ہر کیس میں فل کورٹ بلانے پر اصرار کرتے ہیں قوی امید ہے کہ ججز کی تعداد 34 ہونے کے بعد فل کورٹ سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ بھی دم توڑ جائیں گی اور تحریک انصاف کو سہولت کاروں کے بجائے سیاسی جماعتوں کی حقیقی طاقت کہ جو عوام کی طاقت ہوتی ہے اسی پر بھروسہ کر کے اپنی سیاست کرنا ہو گی۔
تبصرے بند ہیں.