ایک بہت بڑے چوہدری کا دل ایک انتہائی حسین عورت پر آ گیا ۔اب مسئلہ یہ تھا کہ خاتون کا اپنا تعلق ایک رئیس خا ندان سے تھا سو کسی صورت دال گلتی نظر نہیں آ رہی تھی لیکن چوہدری صاحب کا دل تھا کہ انہیں دن کی خبر رہی نہ رات کی ۔ سوتے جاگتے ٗ اٹھتے بیٹھتے بس وہی حسین چہرہ تھا جو اُن کے سامنے تھا ۔ وہ عشق کے بدترین مرض میں مبتلا ہوچکے تھے ۔ جب کسی صورت بات نہ بنی تو چوہدری کے میراثی نے ایک عامل کی راہ دکھا دی ۔ چوہدری کی امید بند ھ گئی اور وہ فورا درِ عامل پرجا پہنچا ۔ عامل نے پانچ لاکھ کا مطالبہ کیا تو چوہدری نے دس لاکھ قدموں پر نثار کر دیئے۔ اب عامل چوہدری کو بھی جانتا تھا کہ وہ کتنا بے رحم ہے اور اپنی حقیقت سے بھی خوب واقف تھا لیکن تھا کمال کا مکار ۔ اُس نے چوہدری سے کہا: ’’چوہدری صاحب سارا کام میں کردوں گا لیکن چالیس دن کا ایک وظیفہ آپ کو بھی کرنا ہو گا ۔‘‘ چوہدری نے فوراً حامی بھر لی اور عامل نے نہ جانے کس زبان میں ایک طویل تحریر چوہدری صاحب کے ہاتھ میں تھما دی اور ساتھ ہی کہا کہ وظیفہ شروع کرنے سے پہلے مجھے سنانا ہے اور پھر میری اجازت سے شروع کرناہے ۔ عامل نے سوچا نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی لیکن بدقسمتی سے اگلے ہی دن چوہدری صاحب وظیفہ از بر کرکے عامل کے درِ دولت پر پہنچا گئے ۔ عامل کے ہوش اڑ گئے لیکن اُس نے کہا چوہدری صاحب اس وظیفہ کی صرف ایک ہی شرط ہے کہ وظیفے سے پہلے ٗ درمیان یا آخر میں آپ کو بندر کا خیال نہیں آنا چاہیے ۔ چوہدری نے حامی بھر لی اور روانہ ہو گیا ۔ چھ ماہ بعد چوہدری روتا پیٹتا عامل کے پاس پہنچ گیا کہ یہ وظیفہ مجھ سے ہونے کا نہیں ۔ کیونکہ وظیفہ شروع کرنے سے پہلے ہی خیال آ جاتا ہے کہ بندر کا خیال نہیں آنا چاہیے ۔ عامل نے کہا اس محبوب کو قدموں میں لانے کا واحد یہی ایک ذریعہ تھا وہ میں نے آپ کو بتا دیا اب آپ جانے اورآپ کا کام ۔سنا ہے چوہدری آج بھی وظیفہ شروع کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن بندر ہے کہ دماغ سے نکلنے کانام ہی نہیں لے رہا۔
پاکستانیوں کو ایک بات تو بہرحال تسلیم کرنا پڑے گی کہ عمران نیازی کی بدولت دنیا بھر کی ریاستوں میں بسنے والے عوام اپنے اپنے پوشیدہ یوتھیوں کی شکلوں سے آشنا ہو گئے ورنہ یہ لوگ اعلیٰ ترین عہدوں پر بیٹھ کر عوام کو یوتھیا بنا رہے تھے اورآج تک معززین میں بھی شمار ہوتے تھے ۔ امریکی کانگرس کے 62 یوتھیا اراکین نے پی ٹی آئی کی طرف سے بھیجے گئے من گھڑت افسانے دنیا کی سپر پاور کو چلانے والوں کو بھیجے اور انہوں نے بغیر کسی تصدیق کے وہ من گھڑت کہانیاں اپنے ’’ یوتھیا اعظم ‘‘ کو بھیج دیں ۔ اس حیران کُن حرکت پر پاکستان کے 160 ارکان ِ پارلیمنٹ نے اپنے وزیر اعظم کو مذمتی خط لکھ کر امریکی مداخلت کو نامنظور کہا ۔خط میں پاکستانی پارلیمنٹرین نے عمران نیازی کے انقلابی بننے کے بعد کے تمام ریاست مخالف ’’کارناموں ‘‘کا ذکر کیا۔امید ہے کہ اس کا امریکہ پر کوئی اثر نہیں ہو گا جیسا جوبائیڈن پر نہیں ہوا ۔قاضی فائز عیسیٰ پر برطانیہ میں ہونے والا حملہ نہ صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ ریاست ِ پاکستان کو بدنام کرنے اور ایک اعلیٰ سرکاری عہدہ سے فارغ ہونے والے جج پر حملہ دراصل نئے چیف جسٹس کو پیغام دیا گیا ہے اور یہ طریقہ واردات 2014 ء سے تحریک انصاف نے اختیار کر رکھی ہے لیکن ابھی تک ریاست اُن کے سامنے اصلی چہرے کے ساتھ نہیں آئی ورنہ ایسی غنڈہ گردی کسی اورریاست کے خلاف ہوئی ہوتی تو اب تک انہیں نشان عبرت بنادیا جاتا ۔ ریاست کو لونڈوں کا کھیل بنا کررکھ دیا گیا ہے۔
میجر جنرل (ر) غلام عمر کے فرزندِ ارجمند جنا ب زبیر عمر سابق گورنر سندھ کو کسی نے اطلاع دی ہے کہ عبد العلیم خان کو نجکاری بارے کوئی علم نہیں ۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ عبد العلیم خان پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا ہے کہ پی آئی اے پنجاب حکومت لے لے وہ پی آئی اے کو اچھا چلا لے گی اوروفاق میں جو اُن کے انکل بیٹھے ہیں وہ اسے نہیں چلا سکتے۔ زبیر عمر کے مطابق علیم خان کو جواب دینا ہے کہ پی آئی اے کتنی خراب حالت میں ہے۔ اِن خیالات کا اظہار انہوں نے ایک قومی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ ابن ِ غلام عمر کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے کے سب سے زیادہ قصور وار بطور وزیر نجکاری علیم خان ہیں۔ پانچ بولی دھندہ کے بھاگنے میں بھی علیم خان کا قصور ہے۔ علیم خان سے پوچھا جائے کہ کیا انہوں نے کوئی روڈ شو کیا۔ سرمایہ کاری کے ایڈوائزرز سے سوال کیا کہ وہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو لانے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکے۔؟ نجکاری کے عمل کو دھچکا لگا اور اب کہہ رہے ہیں کہ میں ذمہ دار نہیں۔ یہ ہیں وہ اقوال زریں جو سندھ کے سابق گورنر زبیر عمر نے اپنی ذہانت کے نہاں خانوں میں پوشیدہ عقل و دانش کی اتھا ہ گہرائیوں سے نکال کر عوام کے ذہنوں میں اُنڈیلنے کی کوشش کی ہے ۔ میں نے عبد العلیم خان کی کانفرنس کا ایک ایک لفظ غور سے سنا ہے کیوں کہ میں وہاں موجود تھا لیکن میجر جنرل غلام عمر کا بیٹا جس طرح سقوط ِ ڈھاکہ میں اپنے باپ کے ساتھ نہیں تھا اسی طرح اُسے اِس پریس کانفرنس بارے میں کچھ علم نہیں کیونکہ وہ نہ تو 71 ء میں مشرقی پاکستان میں تھا اورنہ ہی پریس کانفرنس کے وقت پریس کانفرنس میں اور انہیں لکھ کر جو ون لائنر دیئے گئے ہیں وہ بھی کسی تعصب کی بنیاد پر من مرضی کا مفہوم بنا کر پیش کیے گئے ہیں ۔ عبد العلیم خان نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے انتہائی مدلل پریس کانفرنس کی اور صحافیوں کے جواب خندہ پیشانی سے دئیے لیکن ابھی کل کی بات ہے کہ زبیر عمر کو سندھ کا گورنر بنایا گیا تو اُنکی کارکردگی یہ تھی کہ وہ خاموش فلموں کے ہیرو بن کر منظرِ عام پر آئے ۔ اگر انہیں عبد العلیم خان کا کام پسند نہیں تو وہ میاں شہباز شریف یا میاں محمد نواز شریف پر تنقید کریں کیوں کہ عبد العلیم خان جن عہدوں پرکام کر رہا ہے وہ اُس کی اپنی نہیں بلکہ میاں برادران کی خواہش تھی ۔ سمجھ سے باہر ہو رہا ہے کہ جو بندر عامل نے وظیفے سے پہلے یاد نہ کرنے کی شرط رکھی ہے وہ کیسے پوری ہو گی ۔اس کا حل بھی بہت سے عاملوں کو مل کر نکالنا ہو گا کہ ہر پاکستانی کے خیر کے وظیفے سے پہلے بندر ذہن میں آ جاتا ہے ۔۔ ۔اور وظیفہ ہے کہ ابھی تک وہیں کا وہیں رکا ہوا ہے۔
تبصرے بند ہیں.