نشئی کو جب نشہ نہ ملے تو وہ ہاتھ پائوں مارتا ہے کہیں سے کچھ نہ ملے تو گھر کی اشیاء فروخت کرنے سے بھی باز نہیں آتاچاہے یہ کوشش غلط ہی سہی ؟کروڑوں روپے ماہانہ میں پڑنے والے وزیر خزانہ ڈاکٹراورنگزیب نے تو اب تک کچھ بھی نہیں کیا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چھ ماہ سے قومی اثاثے پی آئی اے کی نجکاری میں لگے تھے یہ وہ بھی نہ کر سکے اب تک صرف دعوے ہی کیے گئے لیکن کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا کے مصداق کسی نے بولی میں دلچسپی ہی ظاہر نہ کی آئی ایم ایف کی پہلی قسط یاردوستوں کی سفارش پر ملی اب اگلی قسط ملنا مشکول نظر آ رہا ہے کہا جا رہا ہے کہ ٹیکس اہداف پورے نہیں ہوئے اب منی بجٹ لایا جائے دوسری طرف عوام معاشی پریشانیوں میں گرے پڑے ہیں جن کے مسائل ہر چڑھتے سورج کے ساتھ بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں اس کے باوجود کسی بھی سیاسی جماعت کو کوئی فکر نہیں ملک کو سیاسی اکھاڑے میں تبدیل کرکے دنگل دنگل کھیلا جا رہا ہے اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے قانون سازیوں پہ قانون سازیاں کی جا رہی ہیں ایک بھی ترمیم عوام کیلئے نہیں حکومت اور اپوزیشن عوام کو سر سے لیکر پائوں تک بے وقوف بنا رہی ہیں ایک طرف حکومت سے جان چھڑانے کی باتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف آئینی کمیٹیوں میں پی ٹی آئی اپنے بندے بھرتی کرا رہی ہے جبکہ 26 ترمیم کیخلاف درخواست بھی دائر کردی گئی ہے گنڈہ پور کو ایسے ہی چھوڑا ہوا ہے جیسے سلمان تاثیر کو پی پی نے پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف پر چھوڑا تھا گنڈہ پور نے پی آئی اے خریدنے کی بھی بڑھک مار ڈالی ہے جبکہ پنجاب سرکاربھی میدان میں کود پڑی تھی جس کی ایک دن بعد ہی تردید آگئی حکومتی صورتحال اتنی خراب ہے کہ کسانوں کو کسان کارڈتو جاری کردئیے لیکن کھاد مل رہی ہے نہ بیج؟ٹھنڈے اور گرم محلات میں بیٹھ کر حکم جاری کرنے والے فیلڈ میں جا کر نہیں دیکھتے کہ اس پر عمل درآمد ہو بھی رہا ہے کہ نہیں؟پی آئی اے کو لوٹ کامال سمجھ کر بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں سینٹ اور پارلیمنٹ کو سیاسی سرکس بنادیا گیا ہے عظمیٰ بخاری فرما رہی ہیں کہ نواز شریف نے یہ نہیں کہا کہ پنجاب حکومت پی آئی اے خریدنے جا رہی ہے،حالانکہ اب تو ہر بات ریکارڈ پر ہے جھوٹ بولنے کی گنجائش ہی نہیں رہی پھر بھی کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف نے پی آئی خریدنے کی بات نہیں کی وہ تو یہ بھی فرما رہی ہیں کہ کے پی کے پاس تنخواہوں کیلئے پیسے نہیں پی آئی اے کو کیا خریدے گی پنجاب اور کے پی سرکار بجائے معیشت کیلئے توانائیاں صرف کریں وہ ایک دوسرے پر نشتر زنی میں وقت ضائع کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف افراطِ زر اور شرح سود میں کمی کی بنیاد پر حکومت مسلسل معیشت کی بہتری اور ملک میں بڑھتی سرمایہ کاری کی تصویر پیش کی جا رہی ہے جو خوش آئند توہے مگر زمینی حقائق کچھ اور نظر آتے ہیں کیونکہ عام آدمی روزانہ کی بنیاد پر جو اشیا خریدتا ہے ان کے نرخوں میں کوئی واضح کمی نظر نہیں آتی، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر کسی حد تک قابو ضرور پایا گیا ہے لیکن بجلی اور گیس کی قیمتوں کا بڑھنا عام آدمی کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے، جب تک عوام کو مہنگائی سے نجات نہیں ملتی، عام آدمی کی حالت بہتر نہیں ہوتی ایسے بیانات محض طفل تسلیاں ہی ہیں ،اگر حکومت معیشت کو حقیقی طور پر استحکام کی جانب نہ لا سکی تو آگے چل کر مسائل ہی مسائل ہوں گے ہم تو اس نشئی سے بھی گئے گزرے ہیں کہ جو خود ہاتھ پائوں مارتا ہے ہم نے تو معیشت مضبوط کرنے کیلئے ہم نے ہمیشہ دوسروں سے ہی امیدیں لگائی ہیں،قرض مانگنے والوں کی عزت نہیں ہوتی ہمیں اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا ورنہ آنے والے دنوں میں ہمیں آئی ایم ایف بھی گھاس نہیں ڈالے گا اس کیلئے ضروری ہے کہ اپنی ایکسپورٹ بڑھائی جائے جس کے لیے اوورسیز کو بھی سرمایہ کاری کی دعوت دینا ہو گ، پرکشش مراعات سے سرمایہ کار راغب ہوتے ہیں اور سرمایہ کاری کے لیے ہمارے سمندر پار پاکستانی بہت بڑا اثاثہ ہیں،اگردیار غیر میں بیٹھے پاکستانی کسی بھی انڈسٹری میں تعاون کریں گے تو یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے،ملک کی انڈسٹری جب چلے گی توروزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے آئی ٹی سیکٹر کو ترقی دینا ہو گی آج دنیا اور خصوصاً بھارت ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے، دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے پیسہ تو مل جاتا ہے مگر عزت چلی جاتی ہے، اس ملک اور قوم کیلئے ہمیں اپنی معیشت کو مضبوط بنانا ہے، اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں گے، ادھر ادھر سے قرضے مانگنے والے ملک کی عزت نہیں ہوتی، آزاد، خود مختار خارجہ پالیسی کے لیے مضبوط معیشت ضروری ہے، ہم نے ہمیشہ امداد کی جانب سے دیکھا ہے جو غلط ہے ،ملکی ترقی کیلئے سیاسی استحکام نا گزیر ہے جس کے لئے سب کو اپنی انا کو پس پشت ڈال کر ایک میز پر بیٹھنا ہو گا، بند گلی میں داخل ہونے کے بجائے مسائل کا حل تلاش کر کے آگے بڑھا جائے اور یہی جمہوریت کی کامیابی ہے ،حکومت ایسی اصلاحات کرے جس سے عوام کو سستا اور فوری انصاف مہیا ہو۔
تبصرے بند ہیں.