آرمی چیف کی مدت میں توسیع ، بہتر فیصلہ

38

پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے اور آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع دے دی ہے جہاں تک آرمی چیف کی مدت ملازمت کا تعلق ہے تو اسے مختلف زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے تاہم مجموعی طور پر یہ نظر آتا ہے کہ اس فیصلے سے ملک میں جمہوری اور سیاسی اور معاشی سطح پر استحکام آئے گا۔ چینی معاشی کوریڈور کی کامیابی کے لیے بھی یہ فیصلہ انتہائی ناگزیر تھا۔ملک کی سیاسی حکومتیں اپنے عہد کے دوران جس پیچیدہ مسئلے سے دو چار ہوتی ہیں کم از کم اب وہ بھی آئندہ انہیں درپیش نہ ہوگا۔ اب بات کرتے ہیں سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کی۔

عقدہ حل طلب یہ ہے کہ اس اقدام سے ایک عام پاکستانی کو جو آج انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے اس سے کوئی فائدہ بھی ہوگا یا نہیں۔ جہاں تک ہمارے عدالتی انصاف کا معیار ہے تو وہ دنیا کے حوالے سے نچلی ترین سطح پر ہے۔ انسانی معاشروں کے لیے انصاف کی فراہمی کس قدر ضروری ہے یہ کوئی ایسی پیچیدگی تو نہیں ہے کہ جسے سمجھنے کے لئے آدمی کا بہت زیادہ ذہین و فطین ہونا ضروری ہے۔ برسوں کے انسانی مشاہدات و تجربات نے یہ حقیقت روز روشن کی مانند عیاں کردی ہے کہ انسانی معاشرے انصاف پر ہی قائم رہ سکتے ہیں۔ ناانصافی اور حق تلفی کی دیمک اگر کسی معاشرے کو لگ جائے تو اسکا جلد یا بدیر زمین بوس ہونا طے ہے۔ یہ امر بھی یقینا صرف ِنظر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ناانصافی کا منحوس چکر جب کسی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے تو سب سے پہلے اس کے پیچھے رئوسا کا وہ طاقتور طبقہ ہوتا ہے جو انصاف کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ یہ شتر بے
مہار طبقہ نہ صرف قانون کی ناک جیسے چاہے موڑ لیتا ہے بلکہ جب چاہے اور جیسے چاہے اسکی وہ درگت بناتا ہے کہ رہے نام اللہ کا۔

یوں انصاف کے جالے میں کمزور تو پھنس جاتے ہیں لیکن طاقتور طبقات اسے درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور اسے باآسانی توڑ کر نکل جاتے ہیں۔
چند روز قبل لاہور میں تعینات ایک سرکاری افسر سے ملاقات ہوئی۔ تھوڑے مضطرب نظر آئے۔پوچھنے پر کہنے لگے کہ میں نے تو اپنی ساری جمع پونجی صرف کرکے اپنے بیٹے کو امریکہ بھیجنے کا انتظام کرلیا ہے۔ چاہتا ہوں کہ وہ جلد از جلد پاکستان سے چلا جائے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ ایسے معاشرے میں زندگی بسر کرے جہاں انصاف نام کی شے کا کوئی وجود نہیں، بلکہ عملاً ناپید ہوچکی ہے۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے ایک ایسے بیمار انسانی معاشرے کا روپ دھار لیا ہے جہاں سڑک پر روک کر کوئی پولیس اہلکار،کوئی ٹریفک والا یا پھر کوئی ریڑھی والا کسی بھی شہری کی بے عزتی کردے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔انصاف ملنا تو دور کی بات عام شہری کے لئے اپنی عزت نفس بچانا تک مشکل ہوچکا ہے۔ یہ معاشرہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے بیٹے کو ایسے معاشرے کے حوالے نہیں کر سکتا۔ اس لئے اپنے بیٹے سے ہاتھ جوڑ کرکہا ہے کہ بیٹا تم یہاں سے جاؤ اور اپنی زندگی کسی ایسے معاشرے میں گزارو جہاں کم از کم تمہاری عزت نفس تو محفو ظ ہو۔ پاکستان مختلف مافیاز کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بیورو کریٹس، سیاستدانوں اور طاقتور سرکاری اداروں کے افسران کے لئے کسی جنت سے کم نہیں جہاں عام آدمی کے لئے سانس لینا محال ہو چکا ہے۔سرکاری افسر کا کہنا تھا کہ یہ معاشرہ تب تک ٹھیک نہیں ہوسکتا جب تک اس ملک میں کوئی خونی انقلاب نہ آئے اور ملک کے تمام وسائل پر قابض دس پندرہ لاکھ افراد اس کی نذر نہیں ہوتے۔

قابلِ غور امر یہ ہے کہ اگر ایک اہم سرکاری عہدہ پر تعینات ایک ایس پی اس طر ح سوچ رہا اور اس زاویہ ِنظر کی تشکیل میں بہت سے ایسے محرکات ہیں جن کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تو پھر آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسے میں عام آدمی کی حالت زار کیا ہو گی۔ ستم رسیدہ عوام ان دنوں جس طرح گوناں گوں مسائل سے دوچار اور ناانصافی کی جس چکی میں روز پس رہی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ناانصافی کے اس منحوس بھنور سے نکل پائیں یا پھر تباہی ہمارا مقدر ہے؟یقینا یہ اسی صور ت میں ممکن ہے کہ جب بحیثیت قوم ہم اس بھنور سے نکلنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ دْرست سمت کا تعین کرکے ہم اس راستے پر چل رہے ہوں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ہمارے ارباب اختیار نے قوم کے لئے جس راہ کا تعین کیا ہے وہ اسے تیزی سے ابتری کی جانب لیجارہی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے وفاقی دارالحکومت کے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سے کراچی سے تشبیہ دی ہے یقینا اس کی وجہ اسلام آباد میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال ہے گزشتہ چند روز میں ہونے والی بینک ڈکیتی اور جرائم کی دیگر وارداتوں اور ایسے میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے ایک معروف وکیل کا اغوا جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کی تشویش کا باعث بنا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس ضمن میں صوبائی دارالحکومت لاہور بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ اسلام آباد کے باسی ہوں یا لاہور کے شہری کراچی کے لوگوں کی طرح خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔امید کی جاتی ہے حکومت اس صورتحال کا نوٹس لے کر حالات کو بہتر بنانے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔

تبصرے بند ہیں.