سموگ کا حل مل گیا

94

اس وقت سموگ کرونا سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہورہی ہے،پنجاب اس کی شدید زد میں ہے، تقریباً 12کروڑ 76لاکھ آبادی زہر قاتل میں سانس لے رہے ہیں۔ شدید تذبذب کا شکار ہیں کہ ناجانے سموگ ان کی زندگی کے کتنے سال کم کرتی جارہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ،سموگ جیسی فضائی آلودگی سے پاکستان میں اڑھائی لاکھ کے قریب پاکستانی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
سموگ اگر نیا مسئلہ ہوتا تو حل ڈھونڈنے میں مشکل پیش آتی،یہ دو صدیوں پرانا مسئلہ ہے جس سے یورپ اور برطانیہ نمٹ چکے ہیں۔تدارک کرچکے، حل بھی نکال چکے اور خود کو خوشگوار فضا بھی مہیا کرچکے ہیں۔ سموگ سے انسانوں کا واسطہ غالباً 1907 میں پڑگیا تھا۔
1952میں لندن شدید سموگ کی زد میں تھا،جسے گریٹ سموگ آف لندن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ایک وقت پر سموگ کی شدت اتنی بڑھ گئی تھی کہ لندن میں نظام زندگی ساکت ہوگیا تھا۔حد نگاہ صفر ہوچکی تھی،سموگ عمارتوں اور زیر زمین تہہ خانوں میں بھی داخل ہوچکی تھی۔سینما گھروں میں بھی visibility متاثر ہونے کے باعث شوز منسوخ کردیے گئے تھے۔سموگ سے بالواسطہ اور بلا واسطہ کل اموات 12000تھیں،جس میں ٹریفک حادثات اور بیماریوں کے باعث بھی شامل ہیں۔اس کے بعد برطانیہ نے ہنگامی اقدامات کیے،سر جوڑ کر بیٹھے اور پھر سٹی آف لندن ایکٹ کے کلین ائیر ایکٹ کو نافذ کیا گیا۔عوام سے کوئلے کا استعمال ختم کرایا گیا، سینٹرل ہیٹنگ سسٹم پر منتقل کیا گیا۔جو سینیٹرل ہیٹنگ سسٹم افورڈ نہیں کرسکتے تھے انہیں حکومت نے سبسڈی دی،مالی معاونت فراہم کی۔
صنعتوں کو گرین فارمولے پر لیکر آئے،شہروں سے دور لیکر گئے،اور سب سے اہم ڈیزل کا استعمال جو سموگ کی بڑی وجہ بنتا ہے،ڈیزل والی گاڑیوں پر شہر میں داخلے پر ڈبل ٹیکس کردیا گیا۔اسی پالیسی کے تحت دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ لندن میں آئندہ چند سال میں ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں پر مکمل پابندی عائد کردی جائے گی۔اس کے بعد ہمارے دوست ملک چین کی ہی مثال لے لیجئے ، وہاں بھی فضائی آلودگی کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا ،کامیاب استعمال کیا گیا۔چین نے سموگ کے خاتمے کے لئے ، شنگھائی میں 100، میٹر اونچے سموگ ٹاور کی تعمیر کی۔
شنگھائی ٹاور سے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ،یہ دنیا کا سب سے بڑا ٹاور ہے ،ٹاور کی تعمیر 2015ء میں شروع ہوئی تھی اور اس کا مقصد آلودہ ماحول کو کم لاگت میں صاف کرنے کا طریقہ تلاش کرنا تھا۔ٹاور میں لگا فلٹر آلودہ ہوا کو اپنے اندر کھینچتا ہے اور شمسی توانائی سے اس کو گرم کرتا ہے یوں ہوا ،آلودگی سے پاک ہوجاتی ہے۔
ہوا کو فلٹر کرنے کے بعد فضا میں خارج کردیا جاتا ہے، سائنسدان بتاتے ہیں کہ اس ٹاور کے نتائج کامیاب آرہے ہیں ،یہ ٹاور روزانہ ایک کروڑ کیوبک میٹر صاف ہوا خارج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور گزشتہ کئی ماہ سے ٹاور کے اطراف کی آب و ہوا کے معیار میں بہتری آئی ہے۔یعنی ائیر کوالٹی انڈیکس بہتر ہوا۔
سائنسدانوں نے ٹاور کے اثرات کی جانچ پڑتال کے لئے شہر میں آلودگی کی نگرانی کرنے والے ایک درجن سے زائد اسٹیشن نصب کئے ہیں جس سے معلوم ہوا ہے کہ یہ ٹاور آلودہ ہوا اور سموگ کو متعدل سطح پر لانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔اس ٹاور کو 2018ء میں آپریشن کردیا گیا تھا اور جو اعدادو شمار آپ کیساتھ شیئر کیے ہیں یہ ابتداء کے ہی ہیں اس وقت تو چائنہ سموگ جیسی بلا سے مکمل جان چھڑا چکا ہے۔ایسے ہی دنیا نے اپنے گرین لینڈ کو بچایا،ایک پلاننگ کے تحت شہر بسائے تاکہ نیچر قائم رہے،انسان کا تحفظ بنا رہے۔رئیل اسٹیٹ میں ورٹیکل گئے،ہائی رائز عمارتیں بنائیں،تاکہ گرین لینڈ کم سے کم استعمال ہو۔ہم نے سبز رقبے کو ہاوسنگ سوسائٹیوں کی نذر کردیا،اپنی صحت مند زندگی کی ضمانت رقبے پر رئیل اسٹیٹ کا کاروبار چمکانا شروع کردیا۔ پاکستان گزشتہ دس سال سے سموگ کی شدید زد میں ہے اور بدقسمتی سے ہم کوئی حل نہ نکال پائے، کوئی پالیسی نہ بناپائے،حالانکہ دنیا میں سموگ سے جان چھڑانے کے حل،فارمولے اور پالیسیز موجود ہیں۔

مشکل تب پیش آئے اگر حل ہی موجود نہ ہو،جب ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے سموگ سے جان چھڑانے کا پورا ماڈل موجود ہے ہم نے خود سے کچھ نہ کیا ہوتا،محض دس سال میں اسی ماڈل کو فالو کیا ہوتا تو آج ہم زہر آلود آب و ہوا میں سانس لینے میں دشواری کا سامنا نہ کررہے ہوتے۔اب بھی وقت ہے،یورپ ،برطانیہ اور چائنہ کے ہی ماڈل کو بغیر کسی توقف کے فالو کرلیں،خود سے کچھ نہ کریں،انسانوں کی جان کی حفاظت کرلیں۔مجھے شہبازشریف کی یاد آرہی ہے،اگر ان کے ہوتے ہوئے پنجاب میں سموگ کی موجودہ صورتحال ہوتی تو انہوں نے جیسے ڈینگی سے جنگی بنیادوں پر نجات حاصل کی تھی۔سموگ پر بھی یقیناً ویسی ہی پھرتی دکھائی جاتی،پنجاب حکومت کو شہباز اسپیڈ کو فالو کرنا چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.