قاضی فائز عیسیٰ ریٹائرڈ ہونے کے بعد بیوی بچوں سمیت لندن کے ہو گئے ہیں۔ ہر بڑے عہدہ سے ریٹائرڈ ہونے والا افسر ملک عزیز کو خیر باد کہہ کر کسی نہ کسی دوسرے ملک کا ہو جاتا ہے۔ حالانکہ انہیں ملک عزیز نے عزت، شہرت، دولت دی ہوتی ہے مگر وہ اسے ٹھکرا کر چلتے بنتے ہیں۔ شاید ان کا سب کچھ پیسہ ہی ہوتا ہے۔ وہ ملک جس نے جانے والوں کو ایک مان دیا ہوتا ہے وہ اپنے ملک کو بے امانوں کا ملک سمجھ کر چلتے بنتے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کو اگر وہاں کے باشندے برا بھلا کہتے ہیں یا تنگ کرتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی کئی وجوہات ہو سکتی ہے؟ کئی مخمصے ہو سکتے ہیں؟ قاضی نے اگر اپنی ذات کے ساتھ انصاف کیا ہوتا؟ تو آج انہیں یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے؟ انہیں کوئی بھی گالی نہ دیتا؟ بلکہ لوگ قاضی عیسیٰ کو ہیرو مانتے اور شہزادوں کی طرح اس ملک میں رکھتے۔ قاضی کا تو کام ہی انصاف کرنا ہے۔ اگر عدالتیں ہی اپنے معاملات میں ڈنڈی ماریں تو سمجھ لیجیے ملک کے ہر شعبہ میں انصاف ناپید ہو چکا ہے۔ قاضی کا کام صرف یہی تھا کہ جب بھی قاضی کو توسیع دینے کی بات ہوتی تھی۔ قاضی اسی وقت، بڑی عزت سے انکار کر دیتے اور چپکے سے ریٹائرمنٹ تک اپنی بقیہ سروس پوری کرتے، مگر قاضی نے ایسا سوچا بھی نہیں اور توسیع کا پُر امید مژدہ سننے کیلئے بے قرار رہنے لگے۔ بالآخر قاضی کو یہ دن دیکھنا پڑ گئے۔ اپنے ملک بھی ایک بیکری ملازم نے قاضی سے نامناسب رویہ اختیار کیا اور آج دیار غیر میں بھی قاضی کے خلاف ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ اس صورت حال میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنی عزت انسان کے اپنے ہاتھ ہوتی ہے۔
دوسری بات حکومت نے فائر وال لگوا کر ملک کے بہت سے نوجوان بیروزگار کر دئیے۔ لاکھوں نوجوان بڑی عزت سے اپنے روز گار کے ساتھ وابستہ تھے اور اپنے اپنے خاندانوں کی زندگیوں کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔ فائر وال لگنے سے ایک دم ان کا کاروبار ٹھپ ہو گیا اور کئی گھروں کے چراغ، چراغ سحری کے قریب جا پہنچے ہیں۔ صرف یہی نقصان نہیں ہوا۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ یہ سارے نوجوان مایوسی، پژمردگی، تنہائی، بے روزگاری اور شدید ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔ حکومت نے فائر وال لگوانے پر پچاسی ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کر کے ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے کے ساتھ نوجوانوں کو شدید بے روزگاری سے آشنا کیا ہے۔ یہ سرا سر زیادتی ہوئی ہے یہ اذیت ایک طرف تھی ہی دوسری اذیت یہ ہے کہ اب حکومت نے صرف دس ارب روپے میں پی آئی اے کی بولی لگوائی اور بولی بھی صرف ایک ہی کمپنی سے لگوائی؟ یعنی اب اداروں کو فروخت کرنے کے عمل کی ابتدا ہو چکی ہے؟ یاد رکھیے اگر ادارے فروخت ہونا شروع ہو جائیں تو سمجھ لیجیے کہ ملک تباہی کے دہانے پر اور قوم غلام ہونے کے درپہ ہونے کو ہے۔ اگر ادارے شخصی حیثیت اختیار کر گئے تو یہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں سے سنگسار ہو جائیں گے۔ تعلیم، صحت اور سفری سہولتوں ہر فرد کی ضرورت ہیں؟ اگر یہی ادارے شخصیات کے ہاتھوں میں چلے گئے تو سمجھ لیجیے ان پر استحقاق امرا کا ہو گا اور 75 فیصد غریب عوام ان سہولیات سے محروم ہو جائیں گے۔ موجود صورت حال میں ملک کے تین طرح کے طبقات سوچ کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ امیر بہترین زندگی گزارنے کیلئے دولت کے حصول کیلئے تگ و دو کر رہا ہے اور وہ اس کامیاب بھی ہے۔ مڈل طبقہ روزی روٹی اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے تگ و دو کر رہا ہے اور دن رات ایک کر رہا ہے مگر وہ اس میں ناکام ہو رہا ہے۔ اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر روز بڑھنے والی مہنگائی اس کیلئے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ یہ طبقہ ایک چیز پوری کرتا ہے تو دوسری دسترس سے باہر ہو جاتی ہے۔ یہ طبقہ انڈے، بریڈ، چکن، بچوں کی فیسیں، کتابیں، پیٹرول اور بجلی کے بل کے علاوہ کچھ نہیں سوچتا۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی وضع داری، شرافت خطرے میں پڑتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ تیسرا طبقہ بالکل غربت کی زندگی بسر کر رہا ہے۔ مخدوش حالات میں پڑنے کی وجہ سے یہ لوگ سہولیات، اعلیٰ تعلیم، اچھا گھر اور بلند معیار زندگی کے بارے میں سوچتے ہی نہیں۔ اس کی وجہ صاف نظر آ رہی ہے کہ ان کو دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ یہ طبقہ جو پیٹ کا ایندھن پورا کرنے کیلئے دن رات فکر میں رہتا ہے۔ ان لوگوں کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی مشکلات کم ہوتی نظر نہیں آ رہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی نسلیں پروان چڑھتے ہوئے نظر نہیں آ رہیں۔ مستقبل میں یہ وہ طبقہ ہو گا جو جاہلیت پیدا کرنے میں بھر پور کردار ادا کرے گا۔ یہ نسل مذہب، اخلاقیات، ملکی سالمیت سے بے بہرہ ہو گی۔ ان سے ہر طرح کی برائی کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ حکومتیں اگر اسی طرح ادارے بیچنے پر آمادہ اور عوام کے بارے میں غیر سنجیدہ رہیں تو وہ دن دور نہیں جب ملک عزیز میں تنزلی اپنی آخری حد عبور کر جائے گی۔ یہ ملک عوام کے نام پر بنا ہے اور اس کے ساتھ سلوک انتہائی غیر معقول ہو رہا ہے۔ قارئین اللہ کے نام پر کرنے والے کام کا ایک واقعہ پڑھیے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کہتے ہیں کہ ایک دن میرے استاد نے کہا تمہارے بال بہت بڑھ گئے ہیں انہیں کٹوا کے آنا۔ مگر میری جیب میں پیسے نہیں تھے، حجام کی دکان پر پہنچا تو وہ گاہک کے بال کاٹ رہا تھا۔ میں نے کہا: اے بزرگ! اللہ کے نام پہ بال کاٹ دو گے؟ یہ سنتے ہی حجام نے گاہک کو چھوڑ دیا: کہنے لگا: پیسوں کیلئے تو روز کاٹتا ہوں، اللہ کیلئے آج کوئی آیا ہے۔ حجام روتا تھا اور بال کاٹتا جاتا۔ جنید بغدادی کہتے ہیں، میں نے سوچا کہ زندگی میں جب کبھی پیسے ہوئے تو اس کو ضرور دوں گا۔ عرصہ گزر گیا جنید بڑے صوفی بزرگ بن گئے۔ ایک دن اسی حجام سے ملنے کیلئے گئے، واقعہ یاد دلایا اور کچھ رقم پیش کی۔ کہنے لگا: جنید تو اتنا بڑا صوفی ہو گیا، تجھے اتنا نہیں پتا چلا کہ جو کام اللہ کیلئے کیا جائے، اس کا معاوضہ مخلوق سے نہیں لیتے۔۔! مجھے مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
تبصرے بند ہیں.