دنیا کی نظریں آج کی سپرپاورز میں سے ایک یعنی امریکہ کے انتخابات پر مرکوز ہیں۔ پانچ نومبر کی شام ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیریس کی قسمت کا فیصلہ ہو جائے گا لیکن اس فیصلے سے امریکی عوام کی قسمت پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔ صدارت کی دوڑ میں جو بھی کامیاب ہو گا اس کی نظر میں یورپ، مڈل ایسٹ، افریقہ یا مسلمان ممالک کا مفاد نہیں۔ امریکہ اور امریکی عوام کا مفاد ہو گا۔ اہل امریکہ کے لئے یہی ایک بات ہے جس میں ان کے لئے تسلی و تشفی کا پہلو ہمیشہ زندہ رہتا ہے جبکہ ترقی پذیر ملکوں کے بسنے والے ہر انتخاب کے بعد تذبذب کا شکار رہتے ہیں کہ آنے والی حکومت امریکہ کی جھولی میں جائے گی یا چین کی گود میں استراحت کرے گی۔ کمزور ملک اس چنگل سے نہیں نکلتے۔ تمام دنیا کی طرح امریکہ میں بھی الیکشن بہت مہنگا ہو چکا ہے۔ یہ کسی بھی دور میں سستا نہیں تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں جان ایف کینیڈی الیکشن لڑ رہے تھے ، وہ ایک متمول باپ کے بیٹے تھے ان کے والد پیٹر کینیڈی دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ میں سفیر رہے۔ جان ایف کینیڈی کی الیکشن مہم کے دوران ایک صحافی نے پیٹر کینیڈی سے پوچھا کہ آپ کا بیٹا اب تک الیکشن مہم میں سولہ ارب ڈالر خرچ چکا ہے جبکہ اس کی مہم ابھی نصف باقی ہے۔ اگر وہ مزید سولہ ارب ڈالر اور مجموعی طور پر بتیس ارب ڈالر خرچ کر کے بھی امریکی صدارت کا انتخاب ہار گیا تو آپ کیا کریں گے۔ پیٹر کینیڈی نے نہایت اطمینان سے جواب دیا، انتخاب میں شکست سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں امریکہ جتنی آبادی رکھنے والا ایک جزیرہ خرید کر اپنے بیٹے جان ایف کینیڈی کو اس کا صدر بنادوں گا۔ پیٹر کینیڈی کے جواب کو آپ سیاسی جواب کہیں یا غیر سیاسی حقیقت یہی ہے کہ یہ بڑا جوا ہے لیکن یہ جوا کھیلنے والے ہار جائیں یا جیت جائیں انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ امریکی جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ ایک مرتبہ صدارتی انتخاب میں شکست کھانے والے امیدوار کو اس کی جماعت دوسری مرتبہ ٹکٹ نہیں دیتی، اگلے انتخاب میں نیا گھوڑا میدان میں اتارتی ہے، کبھی کبھار گھوڑی بھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس اعتبار سے ایک منفرد ریکارڈ بنانے جا رہے ہیں کہ پہلی مرتبہ ان کے مقابل ہیلری کلنٹن تھیں جبکہ اس مرتبہ ان کے مقابل کملا ہیریس ہیں۔ دونوں مرتبہ انہیں عورتوں سے مقابلہ کرنا پڑا۔ ٹرمپ اگر اس مرتبہ بھی جیت جاتے ہیں تو انہیں فاتح خواتین کہا جا سکے گا۔ دونوں مرتبہ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی جلسوں ، ریلیوں اور سامنے آنے والے سروے دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے، ٹرمپ خواتین میں مقبول ہیں، وہ اپنی نجی اور کاروباری زندگی میں بھی خواتین کے ساتھ خصوصی تعلقات کے حوالے سے مختلف شہرت رکھتے ہیں جو اس سے قبل کسی اور امریکی صدر کے حصے میں نہیں آئی۔ وہ اپنے مزاج کے اعتبار سے بھی دوسروں سے بہت مختلف ہیں۔ انہیں بڑبولا اور منہ پھٹ کہا جاتا ہے۔ وہ اپنی پسند اور ناپسند کا برملا اظہار کرتے ہیں، کسی بھی موقع پر مصلحت پسندی کا شکار نظر نہیں آتے۔ کملا ہیریس سنجیدہ مزاج ہیں۔ صنف مخالف سے تعلقات کے حوالے سے سابق امریکی صدر کلنٹن نے تھوڑا بہت نام کمایا لیکن ٹرمپ کے حامی اس حوالے سے کہتے ہیں ’’ٹرمپ ساڈا شیر اے‘‘ اگر آپ شیر کے لائف سٹائل کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو یہ بات سچ نظر آئے گی۔ ٹرمپ کو اپنے اوپر قاتلانہ حملے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ امریکی انتخابات کی تاریخ رہی ہے کہ حتمی نتائج آنے کے بعد ہارنے والا اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے جیتنے والے کو مبارک دیتا ہے، جیتنے والا اقتدار سنبھالتا ہے اور سیاسی چپقلش چار برس کیلئے دفن ہو جاتی ہے لیکن ایک انتخاب میں ٹرمپ کی شکست کے بعد یہ روایت ٹوٹ گئی، الیکشن نتائج کو تسلیم نہ کیا گیا ، دھاندلی کے الزامات لگائے گئے، احتجاج ہوئے، توڑ پھوڑ کے واقعات سامنے آئے، متعدد افراد کو سزائیں سنائی گئیں۔
کملا ہیریس نے اپنی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ پر کچھ ایسے الزامات لگائے ہیں جو ریکارڈ پر ہیں، ان میں اہم دستاویز کو غائب کرنا، کیپٹل ہل کے واقعے میں عوام کو اشتعال دلا کر سڑکوں پر لانا اور ان کی نجی زندگی سے جڑی عورتوں کے معاملات شامل ہیں۔ کملا ہیریس الیکشن جیت جاتی ہیں تو وہ جوبائیڈن کے زمانے کی پالیسیوں پر عمل کریں گی جبکہ ٹرمپ نے اپنے ووٹرز سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر بے جا ٹیکسز میں کمی لائیں گے، خواہ مخواہ کی وہ جنگیں ختم کریں گے جن سے امریکہ کو ماضی میں کوئی فائدہ ہوا نہ آئندہ کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔ وہ ان بے کار کی جنگوں پر اٹھنے والے اربوں ڈالر کے اخراجات کو عوام پر خرچ کرنے کے وعدے کرتے نظر آتے ہیں۔ سکھ ووٹرز کا رجحان ٹرمپ کی طرف ہے۔ کملا ہیریس کو بلیک امریکہ اور ہندو ووٹ بکثرت ملیں گے جبکہ مسلمان ووٹر اور خصوصاً عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے ووٹرز ٹرمپ کی طرف جھکائو رکھتے ہیں۔امریکی تجزیہ کاروں کے علاوہ غیر امریکی تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں امیدواروں میں کانٹے کا مقابلہ ہے۔ سات سوئنگ سٹیٹس میں مقابلہ ففٹی ففٹی نظر آتا ہے، کہیں ٹرمپ تو کہیں کملا آگے ہیں۔ لاہور جتنی آبادی رکھنے والا شہر نیویارک الیکشن گہماگہمی میں ہمیشہ کی طرح آگے ہے، ماضی میں ٹرمپ کو یہاں بڑی کامیابی نہیںملی لیکن چند روز قبل کی ریلی کے مثبت اثرات نظر آرہے ہیں۔ ٹرمپ نے کاروبار بڑھانے کا نعرہ دیا ہے۔ ارب پتی کاروباری شخصیات کھل کر اس کا ساتھ دے رہی ہیں لیکن ایسے ہی افراد کملا ہیریس کے ساتھ بھی ہیں۔ مشی گن، وسکونس، نیواڈا، ایری زونا، یوفائے اور پنسلوینیا میں وہی رونق نظر آئی جو پاکستان میں عام انتخابات میں کراچی، سکھر، نوابشاہ، لاہور، ملتان، فیصل آباد، راولپنڈی، کوئٹہ، پشاور میں نظر آتی ہے۔ فرق بریانی اور فاسٹ فوڈ کا ہے۔ امریکہ میں الیکشن لڑنے والے اغوا نہیں ہوئے، نہ ہی کاغذات نامزدگی چھینے گئے۔ الیکشن کمیشن کا بھی کوئی کردار نہ تھا لیکن ان تمام حقائق کے باوجود فارم پینتالیس اور سینتالیس کا رپھڑ پڑ سکتا ہے۔ امریکی سکیورٹی فورسز میں تقسیم موجود ہے، انتظار اس بات کا ہے ٹرمپ کی جیت ہوتی ہے یا سی آئی اے کی۔
تبصرے بند ہیں.