ڈونلڈ لو سے ڈونلڈ ٹرمپ تک!

68

 

ایک مشہور پنجابی کہاوت ہے کہ، ’تپ سی تے ٹھس کر سی‘۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کچھ نکمے قسم کے کشمیریوں کو فوج میں بھرتی کر لیا گیا۔ ابتدائی تربیت کے بعد انہیں فائرنگ رینج پر لے جایا گیا اور ان کے ہاتھوں میں رائفلیں تھما کر فائرنگ کرنے کا آرڈر دیا گیا۔ بیچارے سادہ لوح لوگ کیا جانے کہ رائفل کیسے چلائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے رائفلیں دھوپ میں رکھ دیں اور خود سائیڈ پر ہو کر بیٹھ گئے۔ موقع کا افسر اس حرکت پر خاصہ نالاں ہوا اور ان سے پوچھا کہ رائفل کیوں نہیں چلا رہے تو جواب میں ایک شخص نے سادگی سے جواب دیا کہ، ’تپ سی تے ٹھس کر سی‘ یعنی دھوپ میں رکھنے سے جب یہ گرم ہو جائے گی تو خود بخود چل جائے گی۔
ہماری پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ یہ اپنے بانی چیئرمین کی گرفتاری کے بعد اب تک، نا تو اسمبلی کے فلور پر اور نہ ہی سڑکوں پر،کوئی قابل ذکر ردعمل نہیں دے سکے ہیں۔ تمام تر قیادت بھانت بھانت کی بولیاں بول رہی ہے، گویا کوئی سمت طے نہیں ہے لیکن اتنا ضرور پتا ہے کہ ہم نے شور غوغا کرنا ہے اور میڈیا پر کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور کر دینی ہے جو زیادہ نہیں تو کچھ عرصہ تک ہی سہی لیکن موضوع بحث ضرور بنی رہے۔
خود کچھ نہ کرنے اور ’تپ سی تے ٹھس کر سی‘ والے فارمولے کی پیروی کرتے ہوئے اس سلسلہ کا تازہ ترین بیانیہ یہ اپنایا گیا ہے کہ اگرچہ عمران خان کی حکومت کو ڈونلڈ لو کی ہدایات اور دھمکیوں کے نتیجہ میں ہی رخصت کیا گیا تھا لیکن اب ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد حالات یکسر تبدیل ہو جائیں گے اور مسٹر ٹرمپ منتخب ہونے کے بعد جو ابتدائی کام کریں گے ان میں عمران خان کی جیل سے فوری رہائی کو یقینی بنانا بھی شامل ہو گا۔
ان اللہ کے بندوں سے کوئی پوچھے کہ سب سے پہلے تو یہ کہ اب تک یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ امریکہ میں ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں ڈونلڈ ٹرمپ ہی کامیاب ہو گا۔ (اگر ان لوگوں کو کوئی الہام ہو گیا ہو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا)۔بالفرض ڈونلڈ ٹرمپ ہی کامیاب ہو جاتا ہے تو کیا امریکہ کا صدر اتنا ہی ویلا ہے کہ کرسی سنبھالتے ہی عمران خان نامی شخص کی فائل منگوائے گا اور حکومت پاکستان کو احکامات جاری کر دے گا کہ اگر انہوں نے ماہ نومبر کے اندر اندر اسے رہا نہ کیا تو معاملات اور تعلقات بہت بگاڑ کی طرف چلے جائیں گے۔
اس کے علاوہ کچھ اس قسم کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ باسٹھ امریکی اراکین کانگرس کی جانب سے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔بات اراکین کانگریس کی جانب سے کیے گئے مطالبہ کی حد تک تو درست ہے۔ لیکن اگر ان اراکین کا پروفائل چیک کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان باسٹھ میں سے نو اراکین کٹر نسل پسند یہودی ہیں، 29 اسرائیل کی حرکات اور کارروائیوں کے کھلم کھلا حمائتی ہیں، 13 بھارتی پالیسیوں کی حمایت کرتے رہے ہیں، 21کٹر پاکستان مخالف ہیں اور دو کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دے چکے اس کے علاوہ ان میں سے پچاس ارکان ہم جنس پرستی کے حمائتی ہیں۔
رہی بات ڈونلڈ ٹرمپ کی اندھا دھند حمائت کے حصول کی تو اس سلسلہ میں ایک پاکستانی نژاد امریکی تاجر اور ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی ساجد تارڑ نے کہ چند روز پہلے بتایا تھا کہ کچھ پاکستانی نژاد امریکیوں نے امریکی صدارتی امیدوار کے ساتھ سابق وزیراعظم عمران خان کی قید اور مقامی پاکستانی سیاست پر بات کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن ٹرمپ نے اس بات پر کوئی خاص دھیان نہیں دیا۔
تارڑ جو میری لینڈ میں رہتے ہیں اور ٹرمپ کی مالیاتی ٹیم کے 136 ارکان میں سے ایک ہیں۔ وہ سابق صدر کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے اور انتخابی مہم چلانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔
عرب نیوز کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں ٹرمپ کے معاون نے کہا کہ کچھ پاکستانی نژاد امریکی سوشل میڈیا کے ذریعے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ امریکی صدارتی امیدوار اپنے منتخب ہونے کی صورت میں عمران خان کی رہائی کے لئے حکومت پاکستان پردباؤ ڈال سکتے ہیں، لیکن اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ اپنی جیت کے بعد ٹرمپ کسی بھی شخص کی رہائی کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام میں مداخلت کریں؟ انہوں نے وضاحت کی ہے کہ ٹرمپ کے دور حکومت میں ان کے پاکستان کے وزیر اعظم کے ساتھ تعلقات تھے کسی فرد کے ساتھ نہیں لہٰذا اس صورتحال کی کوئی اینگلنگ نہ کی جائے۔
اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل ہو چکی ہے اور بشریٰ بی بی کی جیل سے رہائی اور سانحہ نو مئی کے علاوہ اسلام آباد میں ہلڑ بازی کے الزامات میں گرفتار سیکڑوں کارکنوں کی مقدمات میں بریت اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ سوشل میڈیا پر اس قسم کا بھی تاثر دیا جا رہا ہے کہ اسی ڈیل کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو بھی بہت جلد جیل سے رہا کر دیا جائے گا۔
پی ٹی آئی قیادت اور ان کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ جو مرضی کہتے رہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی کتابوں میں اتنی آسان اور اتنی جلدی معافی کی کوئی شق نہیں ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں، فوج اپنی اقدار، درجہ بندی اور اصولوں کو ہر صورت میں برقرار رکھتی ہے، جو نظم و ضبط، وفاداری، عزت اور قومی سلامتی کے لیے گہری وابستگی کے گرد گھومتی ہے۔ کسی بھی توہین آمیز رویے، پروٹوکول کی خلاف ورزی، یا اس کے اختیار کی توہین، فوجی قوائد و ضوابط کی خلاف ورزیاں، خاص طور پر اگر وہ کمانڈ کے اختیار کو چیلنج کرنے یا کمزور کرنے کی کوششوں سے متعلق ہوں سخت ردعمل کا باعث بنتی ہے۔
پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین اور ان کی بقیہ قیادت تو باقاعدہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے اعلیٰ افسران کو ڈرٹی ہیری، میر جعفر، میر صادق اور جانے کن کن القابات سے نوازتی رہی ہے، اس کے علاوہ سانحہ نومئی میں تو انہوں نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی ناتو ماضی میں کوئی مثال ملتی ہے اور شائد مستقبل میں بھی کوئی سیاسی پارٹی اس قسم کی جرأت نہ کرے۔ ان سب حرکات کے باوجود اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ایک منظم ادارہ یہ سب کچھ بھلا کر دوبارہ ان کے ساتھ معاملات کو نارمل کر لے گا تو یہ ان کی بہت بڑی بھول ہے۔

تبصرے بند ہیں.