یہ اُن دنوں کی بات ہے جب پاکستان میں موٹر وے نہیں بنی تھی اور لاہور سے اسلام آباد براستہ جی ٹی روڈ جانا پڑتا تھا۔ انہی دنوں کسی کام کے سلسلے میں مجھے اسلام آباد جانا تھا جس کے لیے میں بادامی باغ لاری اڈے سے ایک بس میں سوار ہوا جس پر اسلام آباد نان سٹاپ کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ بس میں انتہائی رش کی وجہ سے مجھے سیٹ نہ مل سکی مجبوراً مجھے کھڑا ہونا پڑا۔ اگلی بس کے انتظار میں جہاں دیر ہونے کا خطرہ تھا وہاں اس بات کی گارنٹی بھی نہیں تھی کہ اُس میں کھڑے ہونے کو بھی جگہ مل سکے کیونکہ ہفتے کا آخری دن ہونے کی وجہ سے لاری اڈے میں سواریوں کی خاصی بھیڑ تھی۔ سو میں نے اسی تھوڑے کو غنیمت جانا اور دیگر سواریوں کے شانہ بشانہ سیٹوں کے درمیان راہداری میں ہی ’’ڈٹ‘‘ گیا۔ لاری اڈے کی طرح بس کے اندر بھی اس قدر بھیڑ تھی کہ ’’الامان‘‘ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی گویا کسی حشر کا سماں تھا جس میں ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی تھی۔ نان اے سی بس کی راہداری میں مسافر ایک دوسرے کے ساتھ ایسے پھنس کر کھڑے تھے کہ گرمی کی شدت اور حبس سے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا لیکن آفرین ہے ڈرائیور اور کنڈکٹر کے جن کو اس ابتر صورتحال میں بھی مزید سواریوں کی پڑی تھی۔ زیادہ سواریوں کے لالچ میں وہ کسی صورت بس چلانے پر آمادہ نہ تھے اُن کے خیال میں ابھی بس خالی تھی اور خالی بس لے جا کر وہ مالکوں کا نقصان نہیں کر سکتے تھے اُن کے نزدیک خالی بس لے جانا سراسر پٹرول اور قیمتی وقت کا زیاں تھا۔ اُن کا قیمتی وقت اور پٹرول تو خیر کیا بچتا اُن کے اس بچت کے شوق نے اتنی دیر میں سواریوں کا اچھا خاصا ’’پٹرول‘‘ نکال دیا۔ کچھ ہی دیر میں مسافروں سے بس یہاں تک لبا لب بھر چکی تھی کہ اب شاید ہی اُس میں کسی ’’بے بس‘‘ کی گنجائش نکلتی، دائیں بائیں ہر طرف سواریاں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسی ہوئی تھیں۔ عام طور پر اس قسم کا منظر جانوروں سے لدھی ہوئی گاڑیوں میں دکھائی دیتا ہے جس میں بے زبان جانوروں کو بڑی بے رحمی سے بھرا ہوتا ہے۔ جب گاڑی میں مزید ایک بھی سواری کی گنجائش نہ رہی تو بڑی بڑی مونچھوں والے ایک اونچے لمبے بدمعاشوں والے حلیے جیسے شخص نے پہلے سے ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھے شخص کو گاڑی سے اُتار کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔ اس نئے ڈرائیور نے بس کا کنٹرول سنبھالتے ہی پہلے اوپر لگے شیشے میں اور اس کے بعد پیچھے گردن گھما کر ایک نظر ناقدانہ انداز میں سواریوںکی طرف دیکھا اور پھر گاڑی چلانے سے پیشتر ٹیپ ریکاڈر پر فُل والیم میں نور جہاں کی آواز میں گانا ’’مزے تے ماہیا ہُون آن گے‘‘ لگا دیا۔ اُس کے بعد ڈرائیور اور کنڈکٹر نے ایک واضح مسکراہٹ کے ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی بات کی جس کے بعد کنڈکٹر نے بس کی باڈی پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے اونچی آواز میں کہا ’’جانے دے استاد ڈبل اے‘‘۔ ڈرائیور نے سر اٹھا کر اوپر شیشے میں فاتحانہ نظروں سے سواریوں کو دوبارہ دیکھا اور اپنی مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے ایک جھٹکے سے بس گیئر میں ڈال دی۔ ڈرائیور کا بس نہیں چل رہا تھا کہ بس کو ہوائی جہاز کی طرح اُڑانا شروع کر دے ٹوٹی پھوٹی سڑک پر اندھا دھند ڈرائیونگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ بس کا انجر پنجر جو پہلے ہی ہلا ہوا تھا مزید ہلنے کے ساتھ سواریوں کا جوڑ جوڑ بھی دُکھنے لگا۔ سواریاں کسی حادثے کے اندیشے اور بس کے اندر بے ہنگم اچھل کود سے خوفزدہ ہو کر ڈرائیور کو احتیاط سے چلنے کی دہائی دینے لگیں۔ ڈرائیور بجائے اس کے کہ اِن کی چیخ و پکار کا کوئی اثر لیتا اُلٹا بس کی رفتار میں اضافہ کرتا جا رہا تھا جس سے سواریوں کی دہائی میں بھی اُسی شدت سے اضافہ ہو رہا تھا۔ سواریوں کی دہائی باقاعدہ احتجاج کا رنگ اختیار کرنے لگی تو کنڈکٹر نے جو ساری صورتحال سے اب تک لاتعلق ہو کر کرایہ وصول کرنے میں مگن تھا اپنے قریب کھڑی چند سواریوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا ’’بھا جی بمب ڈرائیور ہے بمب، اس پر آپ کے احتجاج اور شور شرابے کا کوئی اثر نہیں ہونا‘‘۔ سیٹ پر بیٹھے ایک پڑھے لکھے باریش بزرگ نے کنڈکٹر کی بات سُن کر کہا ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ، اس بیوقوف کو کس نے ڈرائیور رکھا ہے جسے ٹھیک سے ڈرائیونگ کا پتا ہے نہ ٹر یفک قوانین کا۔ اس کی بے جا رفتار اورمسلسل غلط اوور ٹیکنگ سے سواریوں کی جان پر بنی ہوئی ہے اور تم کہتے ہو بمب ڈرائیور ہے‘‘۔ ایک اور صاحب بولے ’’یہ ڈرائیور ہے یا سٹنٹ ماسٹر؟ اس کی مالکوں سے شکایت کرنی چاہیے‘‘۔ کنڈکٹر نے اپنے گندے سے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کہا ’’بائو جی کوئی اس شہزادے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، آپ کس سے اس کی شکایت کریں گے یہ مالکوں کے اعتبارکا بندہ ہے، انہوں نے کچھ سوچ کر ہی اسے نوکری پر رکھا ہے۔ ویسے بھی آپ دیکھیں تو سہی کتنا اونچا لمبا، سوہنا گھبرو جوان اور جی دار ہے‘‘۔ باریش بزرگ دوبارہ بولے ’’بھائی کچھ خدا کا خوف کرو بس چلانے کے لیے اونچا لمبا، سوہنا جوان اور جی دارہونا کافی نہیں اس کے لیے بس چلانے کی مہارت اور ٹریفک قوانین جاننا شرط ہے۔ کنڈکٹر کہنے لگا ’’بزرگو آپ کی یہ پڑھی لکھی باتیں کتابوں میں ہی اچھی لگتی ہیں ان کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں مالکوں کو تو بس یہ پتا ہے کہ شہزادہ اُن کے اعتبار کا بندہ ہے اور ہر شام پوری ایمانداری سے اُنہیں دن بھر کی کمائی لا کر دیتا ہے۔ رہی بات شہزادے کو ڈرائیوری سے ہٹانے کی تو اتنی بات تو آپ بھی سمجھتے ہونگے کہ اسے ڈرائیوری آتی ہو یا نہ آتی ہو جن ’’مالکوں‘‘ نے اسے رکھا ہے جب تک وہ اس سے راضی ہیں کوئی اسے نوکری سے نہیں ہٹا سکتا بلا سے سواریوں کا انجر پنجر ہل جائے اُن کی چیخیں نکلیں یا وہ احتجاج کریں‘‘۔ میں نے بھی اس گفتگو میں اپنا حصہ ڈالا اورکنڈکٹر سے پوچھا ’’اور ان بیچاری سواریوں کا کیا قصور ہے جو کرایہ دے کر غلطی سے نان سٹاپ سمجھ کر اس لوکل اور کھٹارہ بس میں سوار ہو گئی ہیں‘‘۔ کنڈکٹر نے اگلی سواری سے کرایہ لیتے ہوئے کہا ’’بائو جی! یہ ان کا نصیب ہے ہم کسی کو زبردستی گھر سے تو اُٹھا کر نہیں لائے، جس نے ہماری بس میں جانا ہے جائے جس نے اُترنا ہے رستے میں اُتر جائے پر اُسے ٹکٹ کے پیسے واپس نہیں ملیں گے‘‘۔ یہ کہہ کر کنڈکٹر اگلی سواریوں سے کرایہ وصول کرنے میں مگن ہو گیا اور میرے سمیت تمام سواریاں دل ہی دل میں اپنی بے بسی پر کڑنے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی سلامتی کی دعائیں مانگنے کے ساتھ خاموشی سے زبردستی کا لکھا ہوا مقدر بھگتنے لگیں۔
تبصرے بند ہیں.