ارشادِ باری تعالیٰ ہے: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے۔ انسان سے ایک گھر بنتا ہے اور پھر ان گھروں سے ایک معاشرہ بنتا ہے۔ معاشرہ انسانوں سے تشکیل پانے والے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جہاں لوگ باہمی طور پر یکساں زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے اور زندگی کے مختلف امور کی انجام دہی میں ایک دوسرے کے تعاون کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی وہاں کے باسی عقائد و نظریات اور مشترک آداب و عادات کے مالک ہوتے ہیں۔ معاشرتی رویے وہ طرزِ عمل اور عادات ہیں جو کسی فرد یا گروہ کے رویوں کو تشکیل دیتے ہیں اور معاشرتی زندگی میں ان کی جگہ کا تعین کرتے ہیں۔ یہ معاشرتی رویے ہماری زندگی کے مختلف پہلوئوں، جیسا کہ مذہبی، ثقافتی، معاشی اور تعلیمی اداروں کے ذریعے تشکیل پاتے ہیں۔ جن کا براہ راست اثر معاشرتی روابط، افراد کے کردار اور ان کے باہمی تعلقات پر ہوتا ہے۔ ایک معاشرے میں برداشت، صبر اور ایک دوسرے کی مدد کا رویہ عام ہو تو یہ معاشرتی ہم آہنگی کا سبب بنتا ہے۔ اس کے برعکس حسد، بغض اور عدم رواداری جیسے منفی رویے معاشرتی تنازعات کو جنم دیتے ہیں۔ یہ معاشرتی رویے اکثر ثقافتی، مذہبی اور خاندانی پسِ منظر سے وابستہ ہوتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں مختلف طبقات، ثقافتوں اور مذہبی گروہوں کی کثرت کے باعث لوگوں کے رویے بہت متنوع ہیں۔ نسلی تعصب، فرقہ واریت، عدم برداشت، معاشرتی تنگ نظری اور طبقاتی امتیاز جیسے ان معاشرتی رویوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تصادم کے باعث معاشرے میں مختلف مسائل پیدا ہوتے ہیں جو لوگوں کو آپس میں تقسیم کرتے ہیں اور معاشرے کے امن و امان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان معاشرتی رویوں اور ان کے باعث پیدا ہونے والے مسائل کا برائے راست اثر لوگوں کی ذہنی اور جذباتی صحت پر ہوتا ہے جس کے بعد وہ کم اعتمادی، ذہنی دبائو اور اضطراب جیسے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج ہمارے منفی معاشرتی رویے نہ صرف افراد کی ذاتی زندگی کو متاثر کر رہے ہیں، بلکہ مجموعی طور پر معاشرتی فلاح و بہبود کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ان معاشرتی رویوں کا ایک پہلو طبقاتی تفریق بھی ہے، کسی بھی معاشرے میں مالیاتی بنیادوں پر طبقاتی فرق معاشرتی نا انصافی کو فروغ دیتا ہے۔ معاشرے میں اعتماد کی کمی اور امتیازی سلوک اور معاشرتی تنازعات اور جرائم کی شرح میں اضافے جیسے مسائل تب پیدا ہوتے ہیں جب امیر اور غریب خود کو ایک دوسرے سے جدا سمجھتے ہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے، جہاں ہر دوسرا بندہ فلاسفر و دانشور ہے۔ ان حالات میں افراد میں احساسِ محرومی، عدم تحفظ اور بے اطمینانی کئی گنا بڑھ جانے کے باعث معاشرتی استحکام بُری طرح متاثر ہوتا ہے۔ معاشرتی رویوں میں تبدیلی پیدا کرنا کسی صورت بھی آسان کام نہیں، کیونکہ یہ طویل مدت میں معاشرتی، مذہبی اور ثقافتی اثرات کے زیرِ اثر تشکیل پاتے ہیں۔ تاہم، مثبت سوچ، رویے اپنانے اور دوسروں کے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے۔ اس کی اپنی تہذیب اور اپنی ثقافت ہے جو دنیا کی ساری تہذیبوں اور ثقافتوں سے منفرد اور ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ اسی دین نے اقوام عالم کے عروج و زوال کے اہم تاریخی نشاناتِ راہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متعدد اسباب و عوامل کا تذکرہ کیا اور ان کے ذریعے غور و فکر کی راہیں روشن فرمائیں۔ اس سلسلے میں سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ قرآن کریم نے سیاسی، معاشی، ثقافتی اور معاشرتی عروج و زوال کا اصل سبب انفرادی، خاندانی، معاشی اور معاشرتی اخلاق کو قرار دیا، جس کے نتیجے میں ذاتی زندگی میں تزکیہ، انسانی معاشرے میں تعاون، اخوت، عدل و انصاف اور حقیقی خوشحالی رونما ہوتی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو اقوام اخلاقی لحاظ سے مستحکم ہوں گی وہی مادی ترقی اور خود انحصاری کے حصول میں کامیاب ہوں گی۔ آج مسلم دنیا اور خصوصاً ہمارا معاشرہ جن زمینی مسائل کا شکار ہے، ان میں سر فہرست مسئلہ اخلاقی زوال کا ہے۔ اس بات میں کوئی
شک نہیں کہ معاشرے میں پنپنے والی برائیاں ہماری بڑھتی ہوئی منفی سوچ کا شاخسانہ ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے معاشرے میں رواداری ختم ہوتی جا رہی ہے اور عدم برداشت کا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی ترقی اور معاشرتی ترقی کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا، جو معاشرہ معاشرتی ترقی سے ہم آہنگ ہو گا وہیں معاشی ترقی اور معاشرتی ارتقا بھی ہر صورت وقوع پذیر ہو گی۔ معاشرے اور معاشرے کے معاش کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا جیسے انسان کو اس کے پیٹ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ دینِ اسلام وہ مذہب ہے جو مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لوگوں کے درمیان امن، محبت اور احترام کو فروغ دیتا ہے۔ اسلامی معاشرتی نظام کی بنیادیں اس یقین پر منحصر ہیں کہ سب انسان برابر ہیں۔ فرمانِ نبویﷺ ہے کہ مذہب وہ نہیں ہے جو کوئی رسمی یا غیر رسمی طور پر کرتا ہے بلکہ مذہب یہ ہے کہ کوئی دوسرے کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ لہٰذا ایسے اعمال کے بغیر تقویٰ اختیار کرنا کافی نہیں ہے جو کسی کے عقائد کو ظاہر کرتے ہوں۔ ایمان کی زندگی عبادت ہے، خدمت ِ خلق کے ذریعے خدا کی خوشنودی کا حصول ممکن ہے۔ دینِ اسلام اخلاقِ حسنہ اور اچھے کردار کے تصور پر محیط ہے۔ معاشرتی نظام کا تحفظ اس بات پر منحصر ہے کہ معاشرے کا ہر فرد آزادانہ طور پر یکساں اخلاقی اصولوں اور طریقوں پر عمل پیرا ہو۔ فرمانِ نبویﷺ ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی نا چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔ اچھا اخلاق اور اچھے معاشرتی رویے ہی اسلام میں معاشرتی نظام کا ایک اہم اصول ہیں۔ ایمانداری، احترام، وفاداری، رحم، محبت، قربانی، ہمدردی اور نرمی کسی بھی معاشرے کو مستحکم کرتے ہیں۔ شو مئی قسمت کے دورِ حاضر میں ہمارے ہاں معاشی نظام اور معاشرتی ترقی کا ایک بڑا انحصار سودی نظامِ لین دین پر ہے۔ بظاہر تو مادہ پرستی پر مبنی یہ سارا نظام پھلتا پھولتا دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اس سب میں ہمارا معاشرہ بالکل بے قصور ہے؟ کیا اس ضمن میں معاشرے کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی؟ کسی بھی معاشرے کی اصلاح کے لیے امانت داری، قناعت، حلال رزق، صداقت، صبر و تحمل، ایثار، عدل و انصاف، اخوت، رحمدلی اور صلح جوئی بنیادی اصول ہیں ان پر عمل پیرا ہوئے بغیر کوئی بھی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.