ہال میں موجود سامعین کے چہروں کی بے چینی بتا رہی تھی کہ وہ مقرر کی باتوں سے متفق نہیں ہیں۔ یہ لاہور میں مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کی ہفتہ وار محفل تھی جس میں امریکہ میں بیٹھ کر تعبیر دین کا پروجیکٹ چلانے والے ایک تجدد پسند سپیکر کو دعوت دی گئی تھی۔ ان کی تقریر کا مدعا یہ تھا کہ ہم عالمی طاقتوں کے محکوم ہیں، ہمارے پاس ٹیکنالوجی نہیں ہے، ہم ان سے لڑ نہیں سکتے، ہم نے 1857 سے تاحال جتنی بھی مسلح جدوجہد کی ہے ہم ناکام رہے ہیں لہٰذا ہمیں مزاحمت کے بجائے جی حضوری کی روش اختیار کرنی چاہیے۔ دوران تقریر سامعین کی بے چینی عیاں تھی اور سوالات کے سیشن میں یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ اکثر سامعین نے مقرر کی تقریر کومسترد کر دیا ہے۔ تحریک آزادی فلسطین پر نقد کرنے والوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ یہ غلط استدلال اور خلط مبحث کے ذریعے ناظرین و سامعین کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی چائے کی پیالی کے گرد بیٹھا ہو اور دنیا کے تمام مسائل کو صرف ایک چائے کی پیالی کے سائز میں سمجھنے کی کوشش کرے۔ یہ لوگ گلابی عینک لگائے اپنے سکون کی زندگی کی خوشبو میں گم فلسطینیوں کی جدوجہد کو بس ’’چند جملوں کا مسئلہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آتا کہ آزادی کی جنگ صرف چندلفظوں کی جگالی نہیں بلکہ ایک قوم اور نسل کی قربانی مانگتی ہے۔ ان کی تنقید کا انداز ایسا ہوتا ہے جیسے وہ کسی سپر ہیرو کی فلم میں ہنسی مذاق کر رہے ہوں۔ یہ لوگ اپنے آرام دہ صوفے سے اٹھ کر حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور اپنی ’’نظریاتی مسند‘‘ پر بیٹھے رہنا پسند کرتے ہیں بس اس خیال سے کہ ’’یہ تو کوئی عارضی بحران ہے، کل تو سب ٹھیک ہو جائے گا!‘‘۔ کتناحیرت انگیز ہے کہ یہ لوگ دنیا کے ہر مسئلے کو صرف اپنی محدود سوچ کے دائرے میں قید کر لیتے ہیں اور اسی سوچ کے دائرے میں اس کا حل تلاشنا چاہتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں قوموں کی آزادی کی تحریکیں ہمیشہ اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ یہ تحریکیں نہ صرف قوموں کے حقوق کی جنگ لڑتی ہیں بلکہ ان کے لیے عزت، وقار اور خودمختاری کا ذریعہ بنتی ہیں۔ 1857 کی جنگ آزادی اور فلسطین کی جدوجہد آزادی دو ایسی مثالیں ہیں جو بالترتیب برصغیر اور مشرق وسطیٰ میں مظلوم اقوام کی مزاحمت کی عظیم داستانیں ہیں۔ دونوں تحریکیں مختلف ادوار اور مختلف علاقوں میں وقوع پذیر ہوئیں لیکن ان کا مقصد ایک ہی تھا آزادی کا حصول اور غیر ملکی تسلط کا خاتمہ۔ فلسطین کی آزادی کی جدوجہد مشرق وسطیٰ میں ایک تاریخی جدوجہد ہے جو بیسویں صدی کے آغاز میں سامنے آئی اور آج تک جاری ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضے، صیہونی تحریک اور عالمی سیاست کے زیراثر فلسطینیوں کی جد و جہد کو ختم کرنے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن فلسطینی عوام اپنے حقوق کے لیے آج بھی مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہندوستان اور فلسطین کی آزادی کی جنگوں میں بہت سے قدریں مشترک ہیں مثلًا1857 کی جنگ آزادی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بیک وقت اور منظم طریقے سے لڑی گئی۔ مختلف مذاہب، ثقافتوں اور طبقات کے لوگوں نے انگریزوں کے خلاف مل کر جدوجہد کی۔ فلسطین میں بھی مختلف گروہ جیسے حماس، الفتح اور اسلامی جہاد نے مختلف ادوار میں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی۔1857 کی جنگ آزادی میں مقامی سپاہیوں نے پرانی جنگی تکنیک اور وسائل سے انگریزوں کا مقابلہ کیا۔ فلسطین میں بھی مسلح جدوجہد بنیادی طور پر مقامی وسائل اور افراد پر مشتمل ہے۔ حماس اور دیگر مزاحمتی تنظیموں نے محدود وسائل کے باوجود اسرائیلی فوج کے خلاف مزاحمت جاری رکھی ہے۔ دونوں تحریکوں میں عوامی حمایت ایک نمایاں عنصر رہی ہے۔ 1857 کی جنگ میں عوام نے اپنے مجاہدین کی حمایت کی جبکہ فلسطین میں بھی عوام نے اپنی جان و مال کی قربانیاں دے کر مزاحمت کو مضبوط کیا۔ عوامی حمایت ہی ان تحریکوں کو جاندار اور طویل عرصے تک جاری رکھنے کا ذریعہ ہے۔
1857 کی جنگ کے بعد برطانوی حکومت نے براہ راست ہندوستان کا کنٹرول سنبھال لیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور ختم ہو گیا۔ برطانوی تاج نے ہندوستانی عوام پر براہ راست حکمرانی کی۔ فلسطین میں اسرائیل کی ناجائز ریاست کے قیام کے بعد بھی فلسطینیوں کو اپنے حقوق کے حصول کے لیے عالمی سطح پر طویل جدوجہد کرنا پڑی۔ اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں کے باوجود فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملا اور مسئلہ آج بھی حل طلب ہے۔1857 کی جنگ آزادی نے برصغیر میںوطن پرستی کے جذبات کو بیدار کیا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں نے اپنی شناخت اور آزادی کی اہمیت کو محسوس کیا۔ فلسطین میں بھی اسرائیلی ظلم اور جبر نے فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے یکجا کر دیا اور عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت میں اضافہ ہوا۔ 1857 کی جنگ آزادی نے برصغیر کی ثقافت میں آزادی کی ایک انوکھی جھلک پیدا کی جسے شاعری، ادب اور موسیقی میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ فلسطین میں بھی جدوجہد آزادی کی کہانیاں، نظمیں اور ثقافتی اظہار فلسطینیوں کی قومی شناخت اور مزاحمت کا حصہ بن چکے ہیں۔ فلسطین کی جدوجہد آزادی کو عالمی سطح پر مسلمانوں اور انصاف پسند لوگوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں نے دنیا بھر میں بیداری پیدا کی ہے۔ تاہم عالمی طاقتوں کے دہرے معیار اور اسرائیل کی مسلسل جارحیت کے باعث فلسطین کے مسئلے کا حل ابھی تک سامنے نہیں آ سکا ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیمیں آج بھی فلسطینیوں کو ان کا حق خودارادیت دلوانے میں ناکام نظر آتی ہیں۔
1857 کی جنگ آزادی اور فلسطین کی آزادی کی جدوجہد دو مختلف ادوار اور علاقوں کی کہانیاں ہیں لیکن ان دونوں میں ایک مشترکہ عنصر ہے کہ اپنی سرزمین پر اپنے حقوق کے لیے لڑنا۔ برصغیر نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کر کے اپنے لیے آزادی حاصل کی جب کہ آج فلسطینی بھی اس جدوجہد میں مصروف ہیں۔ فلسطینی عوام کی قربانیوں اور ان کے عزم نے دنیا کو یہ باور کرا دیا ہے کہ آزادی کا حصول یقینا ممکن ہے خواہ وقت کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو۔ 1857 کی جنگ نے برصغیر کے عوام کو اپنی شناخت اور حقوق کے لیے لڑنا سکھایا اور اس کی بازگشت بعد میں تحریک آزادی میں سنائی دی جو 1947 میں ہندوستان اور پاکستان کی آزادی پر منتج ہوئی۔ فلسطین کے لیے یہ جدوجہد جاری ہے اور ان کی کامیابی کا خواب ابھی ادھورا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.