شنگھائی تعاون کا نفرنس بخیر و عافیت ہو جانا معجزے سے کم نہیں! ہر ممکن کوشش جاری رہی کہ مہمانوں کو دنگا فساد، خوف ،بے چینی کا دھواں پہنچے۔ دنیا دیکھ لے کہ یہ غیر ذمہ دار، فسادی، جھگڑالو قوم ہے۔ حکومت، عدلیہ اور اپوزیشن مابین ہر وقت آنکھ مچولی رہتی ہے۔گھیراؤ ،جلاؤ ،الٹاؤ، تعلیم عنقا، امتحانات معطل، میڈیا پر ہاؤ ہو! انتشاریوں کو ادھر پکڑا، ادھر عدالتی حکم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ قانون، آئین کی پاسداری؟ محال است و جنوں! سرمایہ کاری اس ملک میں کسی برتے پر ہو اس گھڑمس میں! فکر ہوئی جب خان صاحب نے کہا کہ وہ مزید 100 سال جیل میں گزارلیں گے! یعنی 171 برس کی عمر تک؟ جیل یوں بھی ساز گار ہے کہ ان کے اخراجات (گھر، دفتر، پارٹی چلانے کے) سارے عوام پر آ پڑے ہیں۔قوم ٹیکس بھرے تاکہ یہ شاہی مہمان جیل میں پالا جائے۔ ہنگامہ آرائیوں میں کروڑوں کی املاک کی تباہی کا جرمانہ ہمیں بھرنا ہے۔ جلانے، توڑ پھوڑ کرنے والے عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں تو معصوم پپو صورت بن جاتے ہیں اور جج صاحبان کہتے ہیں: ’بچے ہیں انھیں چھوڑ دو!‘ انہی جیسے نوجوانوں نے جس حکمت و تدبر کے ساتھ حسینہ واجد کی اجاڑی مملکت کو (عمریں 26 – 17 سال) اٹھا کھڑا کیا۔ وزیراعظم کے فرار ہو جانے کے بعد بڑے سیاسی انتظامی فیصلے سنجیدگی اور بردباری سے کیے۔ عبوری حکومت بننے تک (جو انھوں نے ہی تشکیل دی۔) شہروں میں (حکومتی عملہ فوری بحال نہ ہونے پر) صفائی، کچرا اٹھانے تک کے کام طلباء نے خودکیے۔ یک رنگ، ہم آہنگ، یک زبان ہو کر ایک منظم قوم کی صورت سب ڈھل گئے۔ یہاں ان کی مثال تو لی گئی کہ ’نو جوانوں کا برپا کردہ انقلاب!‘ مگر عرصہ دراز سے ہمارے ہاں سیرت و کردار سازی سوشل میڈیا، ٹک ٹاک، وی لاگ فتوری انتشاری سیاست کے زیر سایہ ہو رہی ہے۔ 2014 ء کا انقلاب یاد کیجئے، یہ اسی کی دوسری قسط ہے۔ مشرف پورے ملک سے اسلام کو ’سافٹ امیج‘ اور ’روشن خیالی‘ کی بے خیالی میں ہی مٹانے چھپانے کی پالیسی بنا گیا۔ سیکولرازم کا راج ہے۔ عجب مخنث جمہوریت رواج پا گئی ہے۔ نہ یہ کتابوں میں لکھی آئیڈیل جمہوریت ہے۔ مغرب میں اگر کسی درجہ ہو بھی تو امریکی انتخابات نمونہ ہیں!یہ بہت بھاری سرمایہ کاری، صیہونی شکنجے میں پھنسی،صدارت یا ٹرمپ جیسے لال بجھکڑ لے کر آتی ہے یا کمالا ہیرس کمال کی منافقانہ ہیرا پھیری سے مسلم ووٹ سمیٹنے کے چکر میں ہے۔ جھوٹ کے بگولوں میں ہچکولے کھاتی ہر جا جمہوریت! ہم بھول چکے ہیں کہ اسلام مذہب نہیں (صرف عبادات) ’الدین‘ ہے۔ مکمل طرزِ زندگی! قرآن حقیقی آئین ہے۔ ہر شعبے میں رہنمائی۔ ملکی آئین عملاً اللہ کے احکام کو بروئے کار لانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں 13 اکتوبر سے سوشل میڈیا پر جھوٹی من گھڑت کہانی چھوڑ نے سے جو شرارے اٹھے، خدا کی پناہ! پنڈی اسلام آباد میں ابتدائی ہنگامہ آرائی پروگرام فلاپ ہونے پر لاہور پر ضرب لگائی۔ پرائیوٹ (پنجاب کالج برائے طالبات) کالج میں چوکیدار کے ہاتھوں ایک طالبہ کی پامالی کی جھوٹی خبر لگا دی اور پھر چل سو چل۔ حالانکہ تلاشِ بسیار کے باوجود اس جرم کے کردار ڈھونڈے نہ مل پائے۔حد تو یہ ہے کہ لالہ موسیٰ میں ایک بے گناہ چوکیدار کو طلبا ء کے ہجوم نے ٹارچر کرتے ہلاک کر دیا۔ صوبائی حکومت نے حالات کی نزاکت کے تحت وقوعے کی فوری تحقیق، اور غنڈہ گردی کا فوری سد باب کیا۔ توڑ پھوڑ کرنے والوں کی گرفتاریاں ہوئیں۔ پٹرول بم پھینک کر پولیس کی موٹر سائیکلیں جلائی گئیں۔ جا بجا آگ لگانے، پرائیوٹ کالج کے دیگر اداروں سے لوٹ مار، جلانے پر کنٹرول کی سعی کی گئی۔ مہمانوں اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا کے ذریعے بدترین تاثر، ان فیک نیوز کے ہاتھوں پھیلا۔یہ صریح جھوٹ یو این کمیٹی برائے انسانی حقوق (CCPR) جنیوا نے مزید پھیلا دیا۔
ایف آئی اے نے (سائبر ونگ) صحافی، وکلائ، کہانی گھڑنے، پھیلا نے کے ذمہ داران پکڑے۔ سب کھل گیا۔ کالج کی پرنسپل کی پریس کا نفرنس میں لڑکیوں کے محاذ پر سر گرم طالبہ نے ایک وڈیو گھڑ کر بے بنیاد جاری، شیئر کرنے کی غلطی کا اقرار کیا اور معافی مانگی۔ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن نے احتجاجوں پر ابھارا۔ CCPO کی پریس کانفرنس، وزیر اطلاعات اور خود وزیر اعلیٰ پنجاب نے تمام تفصیلات بیان کر دیں۔ جس بچی کا ناحق نام دنیا بھر میں اچھالا گیا وہ ہر بات سے لا علم بیمار ہسپتال میں داخل تھی۔ ان دنوں کا لج میں تھی ہی نہیں۔ والدین منہ چھپائے اس ناگہانی پر حیران پریشان دکھی رہے۔
اس پر حکومت کو اپنی فورس کو خصوصی تربیت دینے کی ضرورت ہے۔ ٹھنڈے، متحمل ،مدبرانہ رویے سے دیوانگی کے شعلوں پر چھڑکاؤ درکار تھا۔ سوشل میڈیا اور نشریاتی ادارے پوری قوم ہی تقریباً اللہ کے احکام سے جہالت میں مبتلا ہے۔ آخرت، شریعت، تنہا تنہا قبروں میں اتر نے اور روزِ جزا کے حساب کو بھولے بیٹھے ہیں۔ دورِ نبویؐ میں منافقین انتشار پھیلانے کے لیے افواہوں، جھوٹی خبروں سے کام لیتے تھے۔ جس پر النساء 83 میں اللہ نے فرمایا: ’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں، اسے لے کر پھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اسے رسولؐ اور اپنے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔‘ ہیجانی خبروں سے غلط نتائج سے بچانے کو یہ ہدایات کافی ہیں۔ ہم اس دور (فتنہ ہائے دجال) میںداخل ہو چکے جب فرموداتِ نبویؐ کے مطابق: ’جھوٹ بکثرت بولا جائے گا‘۔ (مسند احمد) ’جھوٹی گواہی دینے کا رواج چل پڑے گا‘۔ (مسنداحمد) ’لوگ دنیا کے کچھ سامان کی خاطر اپنا دین ایمان تک بیچ ڈالیں گے‘ ۔(مسلم)
دوسری طرف حق کی سچی گواہی دیتے اپنی جانیں، گھر بار اموال، اولاد دینِ حق پر قربان کر دینے والے نگاہ خیرہ کن سیرت و کردار کے مرقع غزہ نے دنیا پر حجت تمام کر دی ہے۔ اسلام کی قدر و قیمت، رب تعالیٰ کی عظمت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ کے اسوہ پر دنیا بھر میں یکا و تنہا چلنے والے! ان تھک، پرعزم! امت کی مکمل بے حسی وبے اعتنائی !من حیث القوم ثبات کی چٹانیں! جیسی قیادت ہوتی ہے ویسی ہی قوم تیار ہوتی ہے۔ شیخ احمد یاسینؒ، عبدالعزیزرنیتسی ؒسے لے کر اب 62سالہ شیرِ نر یحییٰ سنوار کی شہادت تک۔ یحییٰ سنوار نے کہا اور سچ کر دکھایا: ’اگر ہم موت سے ڈرتے ہیں تو ہم اپنے بستر پر اس موت سے ڈرتے ہیں جو ایک اونٹ کی سی موت ہو۔ یا پھر سٹروک یا دل کے دورے سے مرنے سے۔ ہم اپنے دین، اس کے مقدسات، اپنی سرزمین کی خاطر جان دینے سے نہیں ڈرتے۔ ہمارا خون اور ہماری روحیں، ہمارے کم عمر شہداء کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں دیں۔‘خلیل الحیاء نے حماس کی طرف سے شہادت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: ’یحییٰ سنوار نے اپنی جان ہماری آزادی کی خاطر دی ہے۔ وہ اپنے انجام کو پہنچا پوری بہادری سے! ہاتھ میں فائر آرم، آخری سانس تک، آخری لمحے تک گولیاں چلاتا۔ ایک مقدس مجاہد کی پوری زندگی۔22 سال اسرائیلی جیل میں سر بکف،سر بلند رہا۔ جو زبان بولی اس کی گواہی اپنے خون سے دی۔ شہادت نے اس کی تصدیق کی‘۔ اہل غزہ کا تبصرہ تھا: ’ہیرو اس طرح میدانِ جنگ میں موت کا استقبال کرتا ہے!‘ سنوار کو ٹینک، میزائل نے مارا، خودکش ڈرون نے حملہ کیا۔ وہ زخمی ہو گیا۔کفیہ لپیٹے آخر تک لڑتا رہا۔ ایسا ہوتا ہے ہیرو۔ ایک جنگی ورلڈ کپ ملا عمرؒ نے جیتا، دوسرے میں نمایاں ہیرو یحییٰ سنوارؒ ہیں۔ گرچہ پوری قوم ہی کردار کے زر و جواہر لیے ہے، ان گنت، بے شماربنیان مرصوص ،سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔! امت نے شمالی غزہ، جبالیہ کو شرمناک جرائم کا سامنا کرنے کو تنہا چھوڑ رکھا ہے۔ ہم بے بس ہو کر صرف سجدوں میں رب کو پکار رہے ہیں!
یَا مَنْ نَصَرَ اِبْرَاہِیْمَ عَلٰی اَعْدَائِہٖ : اے وہ ذات جس نے ابراہیمؑ کی مدد کی؍ کو فتح دی (آگ بھڑکانے والے) دشمنوں کے خلاف! (غزہ کی مدد کو آ) – آمین!
قوم خفتہ ہے اسے بیدار کرتے جائیے
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.