(گزشتہ سے پیوستہ)
مکہ مکرمہ میں تین دن قیام کے بعد ہفتہ 20 جولائی کو ہم نے مدینہ منورہ روانہ ہونا تھا۔ ہماری خواتین نے 19 جولائی کو مغرب کی نماز کے بعد اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ رات مسجد الحرام میں گزارنا چاہتی ہیں تا کہ انہیں وہاں عبادت کرنے کا زیادہ وقت مل سکے۔ طے پایا کہ عشاء کی نماز مسجد الحرام میں ادا کرنے کے بعد میں، عمران اور واجد اپنے ہوٹل چلے جائیں گے اور خواتین مسجد الحرام میں اپنی مقررہ جگہ پر ٹھہریں گی اور جیسے انہیں موقعہ ملا وہ خانہ کعبہ کے طواف کے ساتھ حطیم میں نفل ادا کرنے اور حجرِ اسود کو چومنے اور ملتزم کو چھونے کی کوشش بھی کر لیں گی۔ یہ بھی طے پایا کہ صبح فجر کی نماز کے بعد وہ بابِ فہد سے باہر نکل کر ہمارا انتظار کریں گی تاکہ ہم ان کو وہاں سے ساتھ لے کر ہوٹل جائیں اور ناشتے کے بعد مدینہ منورہ روانگی کے لیے بس پکڑ سکیں۔ بظاہر یہ پروگرام بڑا سیدھا سادہ اور قابلِ عمل تھا اور ہم اس پر مطمئن ہو کر اپنے ہوٹل میں آ گئے۔
رات تہجد کی اذان کے وقت میں، عمران اور واجد حسبِ معمول احرام باندھ کر مسجد الحرام میں پہنچ گئے۔ فجر کی نماز ادا کی، طواف مکمل کیا اورمقامِ ابراھیم ؑ پر نفل ادا کیے۔ کچھ دیر ذکر اذکار اور دعاؤں کے بعد باب فہد سے گزر کر مسجد الحرام سے باہر آ گئے تا کہ وہاں سے خواتین کو ساتھ لے کر ہوٹل پہنچیں اور مدینہ منورہ روانگی کے لیے بس پکڑنے میں تاخیر نہ ہونے پائے۔ بابِ فہد کے باہر راضیہ اکیلی موجود تھی لیکن باقی تینوں خواتین میری اہلیہ محترمہ، عمران کی امی اور واجد کی امی کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ راضیہ سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ وہ رات بھر اکٹھی ہی تھیں اور انہیں حطیم کے اندر نوافل ادا کرنے کا موقع مل گیا تھا لیکن فجر کی نماز کے وقت وہ کسی وجہ سے اکٹھی نہ رہ سکیں تاہم انہیں پتہ ہے کہ یہاں ہی آنا ہے۔ ہمیں پریشانی تھی کہ مدینہ منورہ لے کر جانی والی بس کا شارع ابراہیم خلیل پر پہنچنے کا وقت قریب آ رہا ہے یہ نہ ہو کہ بس نکل جائے۔ چنانچہ خواتین کی تلاش اور ان سے جلد سے جلد رابطہ کرنے فیصلہ ہوا۔ عمران اور راضیہ دوبارہ مسجد الحرام کے اندر چلے گئے کہ دیکھیں خواتین
وہاں کہیں اپنی پرانی جگہ پر نہ بیٹھی ہوں۔ واجد باب ِ فہد کے بائیں طرف احاطے میں جہاں کافی تعداد میں مرد و خواتین بیٹھے ہوئے تھے دیکھنے چلا گیا۔ میں اس سے آگے باب الملک عبدالعزیز کے سامنے والے راستے کی طرف گیا کہ دیکھوں خواتین غلطی سے وہاں کہیں نہ پہنچ گئی ہوں۔ پندرہ بیس منٹ ہماری اس تلاش میں لگے اور میں، عمران، واجد اور راضیہ بے نیل و مرام دوبارہ بابِ فہد کے باہر آن اکٹھے ہوئے۔ اب ہوٹل پہنچ کر اور وہاں سے تیار ہو کر شارع ابراہیم خلیل سے مدینہ منورہ کی بس بر وقت نہ پکڑ سکنے کا اندیشہ بڑھ رہا تھا اور اس کے ساتھ ہماری پریشانی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ اچانک عمران کہنے لگا کہ بابِ فہد کے باہر دائیں طر ف کے احاطے میں پچھلی صفوں میں جہاں خواتین کا جمگھٹا نظر آ رہا تھادیکھ لیتے ہیں۔ وہاں پہنچے تو ہماری تینوں خواتین وہاں بڑے مزے سے بیٹھی ہوئی تھیں۔ ہماری پریشانی کچھ کم ہوئی۔ خواتین کو ساتھ لیا کہ جلد سے جلد ہوٹل پہنچیں، وہاں جیسے تیسے ناشتہ کریں اور اپنا سامان لے کر نیچے شارع ابراہیم خلیل پر بس پکڑنے کے لیے آ جائیں۔
جلد ہوٹل پہنچنے کے لیے ہم تیز چلنا چاہتے تھے لیکن شارع ابراہیم خلیل پر سڑک کے کنارے مختلف اشیاء بیچنے والوں نے اپنے سٹال لگا رکھے تھے جن کے ارد گرد بھاؤ تاؤ اور خریداری کرنے والوں کا ہجوم تھا۔ اس کے ساتھ ہماری خواتین بالخصوص میری اہلیہ محترمہ جو سانس کی مریضہ ہیں ان کا تیز چلنا بھی مشکل تھا کہ ان کا سانس بُری طرح پُھولا ہوا تھا۔ ہم نے کوشش کی ہمیں ہوٹل تک کوئی ٹیکسی مل جائے۔ بڑی مشکل سے ایک ٹیکسی والا آمادہ ہوا۔ میں اور چاروں خواتین ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ شارع ابراہیم خلیل سے ہوٹل کی طرف جانے والے راستے پر گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں۔ ٹیکسی ڈرائیور جو ایک پاکستانی تھا اُس نے بڑی مشکل سے آگے ایک گلی سے چکر کاٹ کر ہمیں ہوٹل کے سامنے پہنچا دیا۔ ہم کچھ دیر ہوٹل کی لابی میں بیٹھے کہ اہلیہ محترمہ کا سانس وغیرہ درست ہو اور پھر لفٹ کے ذریعے آٹھویں منزل پر اپنے کمرے میں آ گئے۔ واجد اور راضیہ نے چائے تیار کی کچھ رَس او ر بسکٹ وغیرہ ہمارے پاس تھے۔جلدی جلدی ناشتہ کیا۔ میں، عمران اور واجد نے احرام کی جگہ عام لباس پہنا اور سامان جو پہلے سے پیک تھا اُسے لفٹ میں رکھا اور نیچے استقبالیہ سے ہوتے ہوئے گلی سے گزر کر شارع ابراہیم خلیل پر آ گئے۔
شارع ابراہیم خلیل پر آئے تو دھوپ کچھ تیز ہو چکی تھی۔ ہمارے سامنے کئی نئی سے نئی بسیں کھڑی تھیں جن میں مدینہ جانے والے زائرین بیٹھ رہے تھے۔ ہمیں انتظار تھا کہ ہمیں فون پر اپنی بس جس میں بیٹھنا تھا کے بارے میں اطلاع ملے۔ اسی دوران مکہ مکرمہ میں ہمارے ٹریولر کے نمائندے شیر افضل صاحب کے کسی ساتھی کا فون آ گیا جس نے بتایا کہ آپ کی بس سامنے کھڑی ہے، آپ سامان لے کر سڑک کے پار آ جائیں۔ ہم اُدھر پہنچے، واجد اور عمران نے بس کے نچلے حصے میں سامان رکھنے کی جگہ پر بڑی ترتیب سے سامان رکھوایااور ہم بس کے اندر آ گئے۔ بس میں صرف ڈرائیور صاحب، ڈرائیور کا ایک ساتھی اور ایک اور صاحب جنہوں نے ہمیں فون کیا تھا موجود تھے۔ بس کی اگلی دو سیٹوں کو چھوڑ کر ہم اپنی مرضی کی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ میں اور اہلیہ محترمہ بس کی بائیں جانب کی قطار کی اگلی سے پچھلی سیٹوں پر بیٹھے۔ مجھے تسلی تھی کہ اس طرح مدینہ منورہ جانے والی سڑک یا شاہراہ (شاہراہِ ہجرہ) کے مناظر میری نگاہوں کے سامنے ہو ں گے۔ بس جلد ہی چل پڑی۔ یہ مکہ مکرمہ کی مختلف سڑکوں اور ان پر دو طرفہ بلند و بالا ہوٹلوں کے سامنے سے گزر تی ہوئی تین چار جگہوں پر یہ کشادہ گلیوں میں بنی کئی منزلہ عمارتوں اور رہائشی کمپلیکسز (Complexes) کے سامنے رکی۔ مدینہ منورہ جانے والے زائرین بس میں سوار ہوتے رہے۔ اب یہ تقریباً بھر چکی تھی۔ اس دوران مجھے خیال آیا کہ اگر ہم بس کے دائیں طرف بیٹھے ہوتے تو باہر کے مناظر سے رسائی زیادہ آسان ہوتی۔ میں نے راضیہ سے کہا کہ آپ اپنی امی کے ساتھ ہماری سیٹوں پر آ جائیں اور ہم دائیں طرف آپ کی سیٹوں پر چلے جاتے ہیں۔ جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ خواہ مخواہ میں نے ان کو ڈسٹر ب کیا ہے، اِدھر بھی باہر کے مناظر پر نظریں جمانا آسان نہیں تھا۔ خیر! اب جیسے بھی تھا اپنی سیٹوں پر براجمان رہے۔ اس دوران بس مکہ کے مضافات جہاں سڑک کنارے اور پیچھے پہاڑی ڈھلانوں پر زیادہ تر دو منزلہ اور تین منزلہ مکانات بنے ہیں کے پاس سے گزرتی مدینہ منورہ کی بڑی شاہراہ (شاید شاہراہ ہجرہ) پر آ چکی تھی۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.