ملک میں اس وقت 26ویں آئینی ترمیم کا چرچا ہے۔ کوئی اس کے حق میں تو کوئی مخالفت میں بیان بازی اور تجزیہ کاری کر رہا ہے۔ اس آئینی ترمیم کا صرف حکمران جماعتوں کو ہی فائدہ ہو گا یا ، جیسا کہ بیان کیا جا رہا ہے، عام آدمی کی زندگی پر بھی اس کے کچھ اثرات مرتب ہو ں یہ تو خیر آنے والا وقت ہی طے کرے گا۔آئینی ترمیم کے اثرات جو بھی ہوں لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ اس سلسلہ میں ہونے والی کارروائیوں نے ملک میں نئی سیاسی صف بندیوں اور سیاسی جماعتوں کی نئی درجہ بندیوں کی بنیاد ڈال دی ہے۔
ویسے تو اگر جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس آئینی ایکسرسائز میں نواز لیگ ہو، پیپلزپارٹی ہو، جمعیت علما اسلام ہو یا پھر تحریک انصاف ہرسیاسی پارٹی نے کم ہو یا زیادہ کچھ نہ کچھ پایا ہی ہے اور کھویا کسی نے کچھ بھی نہیں۔ آئینی ترمیم کی منظوری کا کریڈٹ نواز لیگ پیپلزپارٹی کو دے رہی ہے اور پیپلزپارٹی جمعیت علما اسلام اور مولانا فضل الرحمن کواور مولانا صاحب کہتے ہیں کہ آئینی ترمیم کا ڈرافٹ تیار کرنے میں پاکستان تحریک انصاف کا ان پٹ شامل ہے۔یعنی کوئی بھی پارٹی اس کارروائی کا مکمل کریڈٹ لینے سے گریزاں ہے۔
چونکہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی تو بحیثیت حکمران پارٹی اس آئینی ترمیم کے محرک تھے ہی اور اس کی کامیابی کا کریڈٹ انہیں دو پارٹیوں کا حق ہے لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس آئینی ترمیم کا اصل مسودہ تیار کرتے وقت انہیں بھی کچھ نقاط پر تحفظات تھے لیکن یہ انہیں اپنانے پر مجبور تھے ۔ پھر مولانا کی انٹری سے معاملات میں بہتری آنے کی امید پیدا ہوئی اور خیال کیا جانے لگا کہ مولانا کے کھاتے میں ڈال کر ڈرافٹ کو کچھ بہتر بنانے کی کوشش کر لی جائے گی ۔
لیکن اگر یہ کہا جائے کہ مولانا فضل الرحمن اس وقت ملک کے سب سے بڑے اور سیانے سیاستدان ہیں تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ اس آئینی ترمیم کے معاملہ میں بھی مولانا نے مقتدر حلقوں سے براہ راست تصادم کی صورتحال سے بچنے کے لیے اتفاق رائے کے نام پر پاکستان تحریک انصاف کو بھی آن بورڈ لے لیے اور مجوزہ آئینی ترمیم کے حوالہ سے ملاقاتیں اور میٹنگز کرتے رہے۔ اور حتمی طور پر پاکستان تحریک انصاف کے کھاتے میں ڈال کر وہ تمام شقیں جو ان تین سیاسی پارٹیوں (نواز لیگ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام)کے لیے ناپسندیدہ تھیں ناصرف ان کو مجوزہ ڈرافٹ سے خارج کرا دیا بلکہ کچھ باتیں اس میں شامل بھی کرا لی گئیں۔
اگرچہ پیپلز پارٹی کسی نہ کسی حد تک اس آئینی ترمیم کے منظور ہو جانے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کر رہی ہے اورمختلف قسم کے دعوے بھی کرتی ہے لیکن میرے خیال میں تو ، ممکن ہے اسے وقتی طور پر کوئی سیاسی حصول نظر آتا ہو، پیپلز پارٹی نے اس سارے کھیل میں کافی کم فائدہ اٹھایا ہے یا شائد گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ کیونکہ بیک گرائونڈ میں رہتے ہوئے بقیہ تینوں پارٹیوں نے کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل کر لیا ہے لیکن اگر خدا نخواستہ کسی بھی وقت اس آئینی ترمیم کا فیصلہ غلط ثابت ہوا، جیسا کہ اکثر تجزیہ کاروں کا خیال ہے، تو اس کا سارا مبلہ پیپلز پارٹی پر گر جائے گا۔
آئینی ترمیم کے معاملات میں اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے رویہ تو جارحانہ ہی اپنائے رکھا لیکن گیم سیف کھیلی ہے حتیٰ کہ بلاول زرداری کے متعدد بار درخواست کرنے کے باوجود انہوں نے اس مجوزہ ترمیم کا بل اسمبلی میں پیش کرنے سے اجتناب ہی برتا۔ انہوں سیاسی تدبر سے اپنے آپ کو حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے محترم منوا لیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی ہر سطح کی قیادت سے ایک بار نہیں بلکہ بار بار اپنے حق میں اور اپنے احترام میں بیانات دلوا کر انہوں نے ایک طرف تو ان کی جانب سے ماضی میں کی جانے والی بدتمیزیوں اور گستاخیوں کا بدلہ لے لیا ہے تو دوسری طرف ان کو آئندہ کے لیے بھی محتاط رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اس آئینی ترمیم کے سلسلہ میں ہونے والی تمام تر کارروائی میں اگر یہ کہا جائے کہ نواز لیگ تین میں تھی نہ تیرہ میں تو زیادہ غلط نہ ہو گا۔ آئینی ترمیم کا ڈرافٹ مبینہ طور پر کہیں اور تیار کیا گیا، اس میں ترامیم مولانا فضل الرحمن اور پاکستان تحریک انصاف کے کہنے پر کی گئیں اور اسے کامیاب بنانے کے لیے بلاول زرداری سب سے آگے آگے رہے ۔ یعنی نواز لیگ کا کردار اس منشی کا سا رہا جو بستہ اٹھائے چوہدری صاحب کے ساتھ ساتھ تو ہوتا ہے لیکن کسی بھی معاملہ میں عمل دخل کی اجازت نہیں ہوتی۔ نواز لیگ کا کام بھی بس مٹینگز بلانے یا ان کی میزبانی کرنے کی حد تک محدودو رہا یا پھر آخر میں ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر قانون نے بل پیش کر کے ایک کردار ادا کر دیا۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ 23ویں آئینی ترمیم کے سلسلہ میں ہونے والی تمام ترسرگرمیوں میں جس پارٹی کا سب سے زیادہ سیاسی حصول ہے وہ پاکستان تحریک انصاف ہے۔ یہ تمام تر چالاکی اور ہوشیاری سے پارلیمانی کمیٹی کا حصہ بھی رہے پھر مولانا فضل الرحمن کے ساتھ بھی ملاقاتیں کر کے اپنی باتیں منواتے رہے اور آخر میں اس آئینی ترمیم کے سلسلہ میں ہونے والی کارروائی سے کنی کترا گئے۔ یعنی انہوں نے جیسے تیسے کر کے اپنی تجاویز بھی منوا لیں اور اس عمل کا حصہ نہ بننے کا دعویٰ بھی برقرار رکھا۔
اس کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے سلسلہ میں بننے والی کمیٹی کے لیے اپنی نامزدگیا ں بھی بھیج دیں لیکن اجلاس میں شریک نہ ہوئے کیونکہ انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی ہی چیف جسٹس نامزد ہونے والے ہیں ۔ اجلاس سے غیر حاضری نے ایک تو ان کے جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنانے کے موقف پر برقرار رہنے کی لاج رکھ لی تو دوسری طرف انہیں جسٹس یحییٰ آفریدی کی مخالفت میں ووٹ بھی نہیں دینا پڑا۔
ویسے تو چیئرمین کی حیثیت سے پی ٹی آئی میں موجود بیرسٹر گوہر خان کی پارٹی میں اہمیت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن پھر بھی اگر سیاسی فیصلے وہ کر رہے ہیں تو انہیں شاباش ملنی چاہیے، لیکن اگر کوئی اور کر رہا ہے تو اسے بھی شاباش سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے۔ اڈیالہ جیل میں ملاقاتوں پر پابندی کی وجہ سے ایک بات تو پکی ہے کہ ان تمام فیصلوں میں بانی پی ٹی آئی صاحب کا ان پٹ کچھ کم ہی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کے فیصلوں میں ہلڑبازی اور ہنگامہ آرائی کے علاوہ بھی کوئی چیز نظر آ رہی ہے۔ آئینی ترمیم کے موقع پربھی ایک اچھا اور مناسب رویہ اختیار کرنے پر پاکستان تحریک انصاف کو تعریف سے محروم رکھنا زیادتی ہو گی۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.