جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے ہاتھوں ملک کے سیاسی سٹیج پر تگنی کا ناچ ناچنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف چاروں شانے چت نظر آتی ہے۔ پی ٹی آئی کی بچی کھچی قیادت خواص باختدگی کے عالم میں مولانا فضل الرحمن کو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق مولانا فضل الرحمن کو نوچنا چاہتی ہے تا ہم اس عالم بے بسی و خجالت میں اس کے پاس ما سوائے عرق ندامت بہانے کے کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی موجودہ حالت کچھ یوں ہے کہ ایک کا منہ اگر مشرق کی طرف ہے دوسرا مغرب کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے ایسی حالت میں بھلا منزل ملے بھی تو کیسے؟ ویسے پینترے بدلنے اور یو ٹرن لینے کی عادت نے پی ٹی آئی کی قیادت کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑا مرکزی لیڈرشپ اگر جیل کے اندر ہے تو باہر موجود پی ٹی آئی کے زعما باہم سیاسی چپقلش میں مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ تحریک انصاف کے جج ہیں، ہمارا کوئی جج نہیں ہے۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے پاکستان تحریک انصاف نئی بننے والی کمیٹیوں کا بائیکاٹ نہیں کرے گی، تحریک انصاف نئی کمیٹیوں کیلئے نام ضرور دے گی۔ اطلاعات ہیں کہ تحریک انصاف کی جانب سے بیرسٹر گوہر خان، صاحبزادہ حامد رضا اور سینیٹر علی ظفر ججز کی تقرری کیلئے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔ خیال رہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت چیف جسٹس کی تقرری کیلئے خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا تاہم یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے کئی رہنما اپنے ہی چیئرمین کے خلاف صف آرا ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی کے اہم اجلاس میں ججز کی تقرری کیلئے بنائی گئی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والوں کیخلاف کارروائی کی بھی منظوری دیتے ہوئے ووٹ دینے والے اراکین کی بنیادی پارٹی رکنیت منسوخ کرنے اور تادیبی کارروائی پر بھی اتفاق کیا گیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق پارٹی سے روابط منقطع کرنے والے دیگر اراکین کو شوکاز نوٹسز کے اجرا کی بھی منظوری دی گئی۔ اگر اس علامیہ کو مدنظر رکھا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اب پی ٹی آئی اپنے ہی چیئرمین کے خلاف کوئی کارروائی کرے گی۔ ویسے پہلے ہی پی ٹی آئی کے کئی ایم این ایز جو آزاد حیثیت میں قومی اسمبلی میں پہنچے، پی ٹی آئی کو دغا دے چکے ہیں، ان میں سر فہرست تحریک انصاف کے ظہور قریشی، عثمان علی، مبارک زیب، اورنگزیب کھچی، الیاس چوہدری نے حکومت کا ساتھ دیا، ریاض فتیانہ، زین قریشی، مقداد حسین، اسلم گھمن اور ڈاکٹر زرقا بھی حکومتی لابی میں نظر آتے ہیں۔ اس ساری لڑائی میں اگر بات کریں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کی تو انکے آئینی ترمیم کے منظور ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے اگلے چیف جسٹس بننے کے امکانات کافی حد تک مخدوش ہو چکے ہیں۔
اب کچھ بات کرتے ہیں ایک اور خبر کی جو متعلق ہے موسم سرما میں درپیش آنے والے اس سنگین مسئلے کے جسے فوگ کہتے ہیں اس کی بنیادی وجہ فضائی آلودگی ہے حالیہ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند دنوں کے دوران منگل کو صبح سویرے لاہور کا فضائی معیار انتہائی مضر صحت ہے۔ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پنجاب کا دارالحکومت لاہور پہلے نمبر پر موجود ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ لاہور کا ائیر کوالٹی انڈیکس 427 ہے جس کا مطلب ہے کہ شہر کی ہوا کا معیار بد ترین ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی دارالحکومت دہلی کا اس فہرست میں دوسرا نمبر ہے۔ فہرست میں بھارتی شہر کولکتہ کا تیسرا اور دبئی کا آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں چوتھا نمبر ہے۔ فضائی آلودگی کی ذمہ داری اگر تعین کیا جائے تو اس ضمن میں لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، راوی اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، لاہور میٹروپولیٹن کارپوریشن اور ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور اس فہرست سے نکالا نہیں جا سکتا ان اداروں کی ناقص پالیسی کے باعث لاہور کنکریٹ اور سیمنٹ کے جنگل میں تبدیل ہو چکا ہے سبزے کے بے دریغ کٹاؤ اور درختوں کے نہ ہونے کے باعث فضائی آلودگی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ ایسے میں پورے شہر کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے جال میں تبدیل کیا جا رہا ہے اگر اب بھی بروقت اقدامات نہ کیے گئے کو شہریوں کے لیے لاہور میں سانس لینا ناممکن ہو جائے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.