آئینی ترمیم کی منظوری پر پھٹیاں چھالاں مارنے والے بتائیں اس سے عوام کو کیا ملے گاسیاستدانوں کیلئے تو رات کو اور چھٹی کے روز بھی عدالتیں کھل جاتی ہیں لیکن کیا اب سالہا سال سے رکے کیس جلد حل ہو جائیں گے کیابیس بیس سال قید کاٹنے کے بعدبری ہونے والوں کے ان بیس سال کا کفارہ ادا ہو گا؟ کیا کروڑوں لیکر’’ پھاہے‘‘ لگانے اور کروڑوں لے کر’’پھاہے‘‘سے بچانے والوں کا بھی احتساب ہوگاعدالتی نظام پر بات کی جائے تویہ کبھی کسی صورت قابل فخر نہیں رہا بلاول بھٹواپنے ناناکے عدالتی قتل کا رونا ’’رو‘‘رہے ہیں لیکن بے نظیرکے قاتل کیوں نہ پکڑے جا سکے جبکہ ان کی اپنی حکومت تھی رات کے اندھیرے میں پاس کرائی جانے والی ترمیم کیا آخری آ ئینی ترمیم ہو گی جس پر شادیانے بجائے جا رہے ہیں کیونکہ حکومت چاہتی تھی کہ عدلیہ کو بھی تابع کیا جائے جس میں کامیاب ہو گئی حیران کن بات یہ ہے اب چیف جسٹس کا چنائوپارلیمان کے چار بندے کریں گے جن میں سے کوئی انگوٹھا چھاپ بھی ہوا تووہ بھی اس کمیٹی کا حصہ ہو گا اس کے بعد مرضی کے فیصلے نہ کرنے پرچیف جسٹس کو بلیک میل بھی کیا جائے گا،ملک کا جوڈیشل نظام پہلے ہی بیساکھیوں پر کھڑا ہے، آئینی ترمیم نے جوڈیشل نظام کو زمین بوس کر کے رکھ دیا حیران کن طور پرکسی سینیٹر نے آئینی ترمیم کو پڑھا بھی نہیں ہوگا، آئینی ترمیم کو منظور کرنے والے سینیٹرز اور اراکین اسمبلی ملک کے مجرم ہیں، جمعیت علما اسلام نے بھی اس جرم میں سہولت کار کا کردار ادا کیا، سسٹم کو ٹھیک کرنے کے بجائے ایک نیا محاذ کھڑا کردیا گیا جو صرف اپنے مفادات کیلئے کیا گیاکوئی بھول میں نہ رہے کہ فیصلے میرٹ پر ہونگے آئینی عدالت میں آئین اور قانون کے تحت فیصلے نہیں ہوں گے، آئینی ترمیم سے عدالتوں کی آزادی ختم ہو گئی ہے، اب انصاف نہیں ہوگا، ترمیم سے آئین کا حلیہ بگاڑکرعدلیہ کو کمزور کیا گیا ہے 26ویں آئینی ترمیم، آئین کے بنیادی ڈھانچے کیخلاف، آزاد عدلیہ اور اختیارات کے برعکس ہے، اس کے پاس کرنے کا طریقہ بھی غیر آئینی تھا آئین پر بدنما دھبہ لگایا گیا ہے،رات کے اندھیرے میں آئین اور آزاد عدلیہ کا قتل کیا گیا،اگر حکومت سمجھتی ہے کہ عدلیہ قابو میں آ جائے تو یہ غلط فہمی ہے آئینی ترمیم تو دو چار عدالتی فیصلوں کی مار ہے 26 ویں آئینی ترمیم کی دونوں ایوانوں سے دو تہائی اکثریت سے منظوری سے حکومت کے باقی ماندہ دن مزید کم ہو جائیں گے اور خطرات بدستور منڈلاتے رہیں گے، تمام اقدامات عدلیہ کو آزادی دینے کے نام پر ہو رہے ہیں جب کہ بنیادی طور پر حکومت نے عدلیہ کیخلاف ایک محاذ کھول رکھا ہے، ترمیم سے اپنے ادارے کی پیٹھ میں چھرا گھونپا گیا ہے سب دیکھیں گے یہ دو چار عدالتی فیصلوں کی مار ہے، آپ ذرا کیسز لگنے دیں ان کولگ پتہ جائے گا اس اقدام سے حکومت کا غیر جمہوری چہرہ مزید عیاں ہو گیا ہے، آئینی ترمیم ملک میں استحکام نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی طاقت بن جائے گی اپوزیشن جماعتیں پہلے ہی دن آئینی ترمیم کو مسترد کر دیتیں تو آئین محفوظ رہتا، سیاست، ریاست اور عدلیہ کے درمیان جاری کشمکش 26 ویں آئینی ترمیم سے ختم نہیں ہوئی بلکہ اس سے عدم استحکام اور عدم اعتماد کے نئے پہلو بیدار ہونگے اور نہ ہی یہ آخری ترمیم ہو گی کل کو پی ٹی آئی حکومت آگئی تو وہ اسے اکھاڑ دے گی،حکومت نے عوام کے لیے کچھ بھی نہیں کیا اور نہ عوام کا سوچا بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں سے کام چلایا جا رہا ہے ،ذاتی وسیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے پارلیمنٹ کا استعمال انتہائی شرمناک ہے انتخابات میں عوام کے مسائل کے حل کیلئے اپنے آپ کوپیش کرنے والے ممبران اسمبلی کااقتدار میں جاکرذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے دن رات ایک کرنا ناصرف قوم سے وعدہ خلافی ہے بلکہ اپنے حلف سے روگردانی بھی ہے صاحبان اختیار واقتدار عدالتوں میں ججز تعیناتی سے لیکر یونین کونسل کے چوکیدار کی تعیناتی تک اپنے ہاتھ میں رکھ کر اداروں کے وقارکوتباہ وبرباد کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں عوام کا پارلیمانی سیاست سے اعتبار اٹھتا جارہا ہے جوکہ آنے والے وقت میں انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے چوبیس چوبیس گھنٹے بھوکے پیاسے ممبران کا پارلیمنٹ میں بیٹھنے رہنا اور عوام کی مشکلات ومسائل پرایک لفظ بھی نا بولنا انکا حقیقی عوامی مسائل سے چشم پوشی کابدترین مظاہرہ ہے عوام نے 26ویں آئینی ترمیمی بل اوراس سے پہلے بھی ترامیم میں عوامی مسائل سے چشم پوشی کا جومظاہرہ دیکھاہے یہ عوام کو پارلیمانی نظام سے متنفر کرنیکاسبب بنے گا کاش 25کروڑعوام کو نظرانداز کرنیوالوں کواس کااندازہ ہوسکے بصورت دیگر حالات جب بدلیں گے توسب خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گا تب تک حالات کوسنبھالنے میں بہت دیر ہوچکی ہوگی، ترمیم کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ قوم اور ملک کو اس سے کیا فائدہ ہوگا ؟ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ریاست کے ستون ہیں، مجوزہ ترامیم کے بعد ان کے مابین ربط و ضبط میں کتنی بہتری آئے گی؟ اس سے یہ ادارے اجتماعی اور انفرادی طور پر کتنے مضبوط ہوں گے؟ اس ترمیم کے طویل مدتی ثمرات کیا ہوں گے؟ عوام کے روٹی روزی کے مسائل حل کرنے میں یہ ترمیم کتنی ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے؟ یہ سب اپنی زندگی میں دیکھنے کیلئے وقت کا انتظار کیا جائے؟۔
تبصرے بند ہیں.