سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دیدی جس سے حکومت نے ثابت کر دیا کہ حکومت دونوں ایوانوں میں دو تہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ٹھہری ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ابتدائی دو شقوں کی شق وار منظوری کے دوران اپوزیشن کے 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا تاہم بعد میں اپوزیشن ارکان بائیکاٹ کرکے ایوان سے باہر چلے گئے۔ایوان میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے حکومت کو 224 ووٹ درکار تھے تاہم ترمیم پر شق وار منظوری کے دوران 225 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ کیا۔آئینی ترمیم کے حق میں 6 منحرف اراکین نے بھی ووٹ کیا جن میں 5 کا تعلق پی ٹی آئی جب کہ ایک کا تعلق ق لیگ سے بتایا جا رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ آخری مرحلے میں پی ٹی آئی کی سیاسی قلابازی پر سب حیران ہیں۔ سیا سی حلقے پی ٹی آئی کے اس روایتی یو ٹرین پردلچسپ تبصرے کررہے ہیں۔ غالبا ًپی ٹی آئی کو یہ معلوم تھاکہ مولانا فضل الرحمان ترامیم کی حمایت نہیں کریں گے مگر مولانا کے اقرار کے بعد پی ٹی آئی نے قلابازی لگائی اور بائیکاٹ کر دیا۔ کیا اس موقع پر پی ٹی آئی کو بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا ؟ عام آدمی بھی صورتحال کو بھانپ چکا ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی نے بائیکاٹ کا جواز یہ بنایا ہے کہ انتخابات پر ڈاکہ ڈال کر ایوانوں پر قابض گروہ کے پاس آئین کو بدلنے کا جواز نہیں ہے۔مینڈیٹ چور سرکار اور اس کے سرپرست آئین میں ترامیم کے ذریعے ملک میں جنگل کے قانون کو نافذ کرنا اور جمہوریت کو زندہ درگور کرنا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ موجودہ حکومت کو آئین بدلنے کا اختیار نہیں ہے تو پھر بیرسٹر گوہر اور عمرا یوب خان اور ملک عامر ڈوگر خصوصی پا رلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کیوں شریک ہوتے رہے؟ حکومتی مسودہ کیوں مانگا گیا؟ مولا نا فضل الرحمان کے ساتھ تر میمی مسودہ پر مشاورت کیوں کی گئی ؟ بانی چیئر مین عمران خان سے مشاورت کیلئے ملاقات کا مطالبہ کیوں کیا گیا؟اس ساری صورتحال واضح ہو گیا ہے کہ یہی ایک سیاسی جماعت ہے جو ملک میں انتشار کی سیاست کر رہی ہے۔ حکومت نے تیز تر انصاف کے لیے آئینی ترامیم کا پیکیج تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ شیئر کیا تھا۔ عدالتی اصلاحات سے متعلق ان ترامیم کا لمبے عرصے سے انتظار تھا لیکن کچھ مجبوریوں کے باعث ایسا نہیں ہو سکا۔ اس آئینی پیکیج میں اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی، آئین کے آرٹیکل 63 اے میں ترمیم ،جس کے تحت پارلیمانی لیڈر کی مرضی کے خلاف پڑنے والا ووٹ شمار ہوگا۔ اسی طرح عدلیہ کا بوجھ بانٹنے اور عوام کے لیے تیز ترین انصاف کی فراہمی کے لیے سیاسی اور آئینی مقدمات کے لیے آئینی عدالت کا قیام،عدالتی تقرریوں میں اصلاحات ،چیف الیکشن کمشنر کی مدت تعیناتی میں تبدیلی،عدلیہ کے سو موٹو ایکشن کو ریگولر کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل 184/3 میں بھی ترمیم کی ضرورت محسوس کی گئی۔۔ اب چیف جسٹس کے لیے سنیارٹی اصول ختم اور ان کی تقرری کے لیے تین ججز کے نام پارلیمانی کمیشن کو بھیجے جائیں گے. چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی تقرری اسی اصول کے تحت ہوئی۔ ملک میں سیاسی تقسیم کے باعث عدلیہ پر ہمیشہ ہی سیاسی اور آئینی مقدمات کا رش رہتا ہے۔جس کے باعث عوام کو انصاف کے لئے لمبا عرصہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔اسی طرح ماضی میں آرٹیکل 184/3 کو عدلیہ نے بڑی بے رحمی سے استعمال کیا۔ 63 اے کے باعث ارکان اسمبلی اپنے ضمیر کی آواز پر فیصلہ کرنے کی بجائے پارلیمانی لیڈر کے آمرانہ احکامات کے رحم و کرم پر رہتے ہیں۔ عدلیہ پر24 لاکھ پینڈنگ مقدمات کا بوجھ ہے۔ سپریم کورٹ میں 60 ہزار کیسز زیر التوا ہیں۔ اسی ناقص عدالتی کارکردگی پر پاکستان کا 142 ممالک میں 130 واں نمبر ہے۔انہی حالات کو دیکھتے ہوئے حکومت نے عوام کی دادرسی اور بہتر حکمرانی کے لیے جو آئینی ترامیم منظور کرائیں وہ وقتی تقاضا اور عوام کی آواز ہے۔ حکومت نے سیاسی ماحول کو خوشگوار رکھنے کے لئیاپوزیشن کی مثبت تجاویز آئینی پیکیج کا حصہ بنانے کی بات دہرائی تھی۔۔ لیکن کتے کی دم کی طرح آخری وقت تک ٹیڑھی ہی رہی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح پی ٹی آئی ہر اصولی کام میں رکاوٹ ڈالنے کی پالیسی پر کاربند رہی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا آخر نظریہ ہے کیا ؟ کیا یہ جماعت ملک میں دانستہ انتشار کی خواہاں ہے یا پھر اس جماعت میں اعلیٰ سیاسی شعور رکھنے والے سیاستدانوں کی کمی ہے ؟ سیاست میں پگڑی اچھالنے کی روایات کو فروغ دینے کے بعد اب اس جماعت کا ایک دھڑا لچک دکھانے کی طرف آمادہ نظر آتاہے ، بات کچھ آگے بڑھتی ہے تو کے پی کے وزیراعلیٰ کی بڑھکیں سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں جس سے تاثر ملتا ہے کہ یہ جماعت سیاسی ہم آہنگی کے مشن پر فوکس نہیں کرنا چاہتی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد میں محب وطن سیاستدان خوش ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کی خوشی سب نے دیکھی۔ بلاول بھٹو بھی خوش دکھائی دیئے۔ وزیراعظم نے قوم کو مبارکباد دی ، سیاستدانوں کو قانون سازی پر خراج تحسین پیش کیا۔ صرف ایک ہی جماعت ایسی نظر آرہی ہے جس کی سیاسی منافقت سب نے دیکھ لی۔
تبصرے بند ہیں.