وزیراعظم شہباز شریف کی صدارت میں پاکستان میں ہونے والی23ویں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کانفرنس کی کامیابی سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کے عزت ووقار میں اضافہ ہوابلکہ پاکستان میں ہونے والا یہ اجلاس خطے اور دیگر ممالک کے عوام کے لئے بھی ایک روشن مستقبل کی نوید بن کر سامنے آیا ہے۔کانفرنس میں شریک تمام ممالک نے پاکستان کے مثبت کردار کو سراہا بلکہ سیکریٹری جنرل ایس سی او جانگ منگ نے کہا کہ پاکستان میں ایس سی او کے اجلاس کی شاندار کامیابی پرمبارکباد پیش کرتے ہیں، یہ واضح رہے کہ کہ گزشتہ ایک سال کے دوران پاکستان نے ایس سی او کی صدارت کرتے ہوئے علاقائی تعاون کو فروغ دینے، ماحولیاتی تحفظ، غربت کے خاتمے، نوجوانوں کو بااختیار بنانے جیسے اقدامات کیے۔ اجلاس میں چین کے وزیر اعظم لی چیانگ، بیلاروس کے وزیر اعظم رومن گولوو چینکو، قازقستان کے وزیر اعظم اولزہاس بیکوتینوو ، روس کے وزیر اعظم میخائل مشوستن، تاجکستان کے وزیراعظم قاہررسول زادہ، ازبکستان کے وزیراعظم عبداللہ اریپوف، کرغزستان کے وزراء کابینہ کے چیئرمین اکیل بیک جاپاروف ، ایران کے وزیر تجارت سید محمد عطابیک اور بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر ، منگولیا کے وزیراعظم اورترکمانستان کے نائب وزیراعظم راشد میریدوف نے شرکت کی۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھی توقع ظاہر کی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم خطے اور اس سے باہر کے عوام کے لئے بھی ایک روشن مستقبل کی نوید بن سکتی ہے اورپاکستان اپنے تعمیری کردارکی بدولت پائیدار ترقی، علاقائی روابط اور اقتصادی شراکت داری کو بڑھانے، موسمیاتی تبدیلی کو مضبوط بنانے اور غربت کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرسکتا ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں 10 عالمی رہنما اور تقریباً 900 مندوبین شریک ہوئے۔ان میں وہ ممالک شامل تھے جو دنیا کی 40 فیصد آبادی اور اس کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا 30 فیصد سے زیادہ نمائندگی کرتے ہیں۔گزشتہ 27 سال میں، یہ بلاک شنگھائی فائیو گروپ سے شنگھائی تعاون تنظیم میں نمایاں طور پر ترقی کر چکا ہے۔ علاقائی تعاون کے عزم کے ذریعے، تنظیم نے ایک ایسی وراثت تخلیق کی ہے جو مستقبل کے رہنماؤں کو استحکام، سلامتی کے تعاون اور سماجی و اقتصادی ترقی کو بہتر بنانے میں تحریک دے گی۔ فوجی اور سکیورٹی تعاون کے لیے قائم ہونے والی اس تنظیم نے علاقائی سرحدی تنازعات کو حل کرنے، فوجی تعیناتیوں کو ہم آہنگ کرنے اور غیر مغربی، جنہیں کثیر قطبی عالمی نظام کہا جاتا ہے، کے لیے ایک متفقہ موقف پیش کرنے میں مدد فراہم کی۔ نائن الیون کے بعد اس کا مینڈیٹ اب دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سمیت انٹیلی جنس کے تبادلے اور فوجی تعاون پر مشتمل ہے۔ایس سی او کے رکن ممالک نے 2003 سے متعدد مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں اور 2018 میں، پاکستان اور بھارت نے اپنے پہلے ایس سی او جنگی مشقوں میں حصہ لیا تاکہ فرضی دہشت گردی کے خطرات کا خاتمہ کیا جا سکے۔تاہم، روس کے یوکرین پر حملے کے بعد دیکھا گیا کہ ایس سی او نے ماسکو کو کوئی باقاعدہ حمایت فراہم نہیں کی ،حالانکہ چین نے ماسکو کی دفاعی صنعتی بنیاد کی مدد کی ہے اور اس کی معیشت کو سپورٹ کرنے کے لیے سستا روسی خام تیل خریدنے میں اضافہ کیا ہے۔لیکن یہ سابق سوویت ریاستوں کے لیے اچھا نہیں ہوا اور جولائی 2024 میں، ایس سی او کے وسطی ایشیائی ارکان نے بحیرہ کیسپین کے علاقے میں روس یا چین کے بغیر اپنی پہلی جنگی مشقیں (بیرلیسٹیک-2024) کیں۔اب بلاک کا فوجی کردار محدود ہونے کے ساتھ، ایس سی او ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ امریکہ طویل عرصے سے ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ (ٹی پی پی) کا پیچھا کر رہا ہے جس میں آسٹریلیا اور کئی ایشیائی ممالک شامل ہیں، لیکن چین اور روس کو خارج کر دیا گیا ہے، ایس سی او نے اسی دوران اپنا آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) قائم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن کامیابی کم ہی ملی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روس نے 2014 میں چین کے بغیر شنگھائی فائیو کے اصل ارکان کو ایک یوریشین اقتصادی اتحاد (ای اے ای یو) قائم کرنے کے لیے قیادت فراہم کی۔ بعد میں، ای اے ای یو نے ایک اور ایس سی او رکن ایران کو ایک آزاد تجارتی معاہدے میں شامل کیا، حالانکہ چین کے ساتھ نہ تو ایس سی او کے فریم ورک کے تحت اور نہ ہی ای اے ای یو کے فریم ورک کے تحت کوئی ایف ٹی اے طے پا سکا ہے۔ جنوبی ایشیائی تعاون کی تنظیم (ساھک) پہلے ہی ناکارہ ہو چکی ہے، پاکستان کو امید ہے کہ ایس سی او اسے بھارت کے ساتھ فوجی اور پانی کے تنازعات کو حل کرنے میں مدد دے سکتا ہے، چین اور روس، جو بھارت کے بڑے تجارتی شراکت دار ہیں، ایس سی او کو جغرافیائی وزن دینے میں مدد کر سکتے ہیں، اور دو جوہری ریاستوں کے درمیان بات چیت کو آسان بنا سکتے ہیں۔ تپائی (ترکمانستان- افغانستان- پاکستان- بھارت) گیس پائپ لائن پروجیکٹ میں صرف یہ مثال موجود ہے کہ یہ علاقائی توانائی کی طلب کو پورا کرنے اور اربوں ڈالر کے تجارتی مواقع کو کھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایس سی او کانفرنس میں بھارتی وزیر اعظم نریندرا موودی کی نمائندگی بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے کی۔ ان کا پرتپاک خیرمقدم وزیراعظم پاکستان نے تو کیا لیکن وہ کچھ دبے دبے سے رہے البتہ بھارت روانگی سے قبل بھارتی وزیر خارجہ کی پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے غیر معمولی ملاقات ضرور ہوئی جس میں پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ کے موضوع پر بات چیت بھی کی گئی۔ ایس جے شنکر نے شاندار میزبانی پر حکومت پاکستان ‘عوام ‘وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈارکا شکریہ اداکیا۔شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اختتام پر ایس سی اوکے سربراہان حکومت اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا جس میں ریاستوں کی خود مختاری‘ آزادی اور علاقائی سالمیت کے باہمی احترام کے اصول، مساوات، باہمی فائدے، اندرونی معاملات میں عدم مداخلت، طاقت کا استعمال نہ کرنا یا طاقت کے استعمال کی دھمکی نہ دینا بین الاقوامی تعلقات کی پائیدار ترقی کی بنیاد ہے‘ یکطرفہ اور تجارتی پابندیوں کی مخالفت کرتے ہوئے ایس سی اونے عالمی پائیدار ترقی کی حمایت کے لیے کثیر الجہتی تجارتی نظام کی ضرورت پر زور دیا گیا اور واضح طور پر کہا کہ عالمی تجارت کے خلاف پالیسیوں اور پابندیوں کا مقابلہ کرنا ناگزیر ہو چکا ہے جبکہ اعلامیہ میں مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے ملکوں کے درمیان اختلافات اور تنازعات کے پرامن حل کے عزم کا اعادہ بھی کیا گیا جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی برادری غزہ میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی اپنی ذمہ داری نبھائے‘ معاشی ترقی‘ استحکام اورخوشحالی کیلئے ہمیں مل کرآگے بڑھنا ہے ‘عالمی برداری افغانستان کی عبوری حکومت سے جامع بنیادوں پر سیاسی شمولیت کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی بنیادوں پر ان کی مدد کو آگے آئے تاکہ افغانستان کی سرزمین کو کوئی بھی تنظیم ان کے پڑوسیوں کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کر سکے۔اجلاس میں شریک علاقائی رہنمائوں نے خطے کی استعدادو امکانات خاص طور پر تجارت اور رابطوں میں اضافہ کیلئے تعاون اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا۔ ایس سی او کانفرنس پائیدارترقی کیلئے علاقائی تعاون اورروابط کافروغ کیلئے بے حدضروری تھی اور اس کانفرنس سے یہی پیغام دیا گیا کہ معاشی ترقی، استحکام اورخوشحالی کیلئے مل کرآگے بڑھنا ہوگا اور متحد رہ کر سماجی واقتصادی ترقی، علاقائی امنواستحکام اوراپنے شہریوں کے معیارزندگی کوبہترکیا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی ڈھانچہ، عالمی تجارت، ٹیکنالوجی کے نظام اور عالمی مساوات کو فروغ دینے کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے ۔
تبصرے بند ہیں.