ٹیکنالوجی، گلوبلائزیشن اور فتنوں کا پھیلائو

90

آج کی دنیا فتنوں کی زد میں ہے، اور یہ حقیقت ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید واضح ہوتی جا رہی ہے۔ فتنے سے مراد ایک ایسا عمل ہے جو معاشرے میں بے چینی، بد امنی اور فساد کو جنم دیتا ہے۔ انسانوں کی اس دنیا کو آج مختلف اقسام کے فتنوں کا سامنا ہے۔ انسانی تاریخ کے اوراق کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں فتنوں نے انسانی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا، مگر دورِ حاضر میں یہ فتنہ انگیزی زیادہ شدت کے ساتھ روئے زمیں پر اپنے پر پھیلا رہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی، عالمی میڈیا اور گلوبلائزیشن نے دنیا کو ایک گائوں کی شکل دینے کے ساتھ ساتھ اس میں فتنوں کو پھیلانے کے لیے ایک موثر پلیٹ فارم بھی مہیا کیا ہے۔ دنیا میں موجود سب سے پہلا اور اہم فتنہ مذہبی فتنہ ہے۔ مذہب جو انسانیت کی فلاح اور ہدایت کے لیے آیا، بد قسمتی سے اس کا استعمال آج نفرت اور فساد پھیلانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ مذہبی تعصب، شدت پسندی اور دہشت گردی کے نام پر بے گناہ لوگوں کا قتلِ عام کیا جاتا ہے۔ دورِ حاضر میں مذہب کو فتنہ انگیزی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جس کے ذریعے دنیا کے باسی ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں۔ دوسرا بڑا فتنہ جو دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے، وہ اخلاقی پستی کا فتنہ ہے۔ جدید دور کی ترقی اور ٹیکنالوجی نے انسانوں کو سہولیات تو فراہم کی ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ انسانوں کی اس رہائش گاہ میں جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی اور بے حیائی کو جان بوجھ فروغ کر فروغ دیا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے فحاشی اور عریانی کا سیلاب معاشروں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ جس کے باعث نسلِ انسانی اخلاقی اقتدار سے بے بہرہ ہوتی جا رہی ہے۔ یہ اخلاقی زوال فردِ واحد کی ذات سے لے کر خاندان، معاشرے اور دنیا کو پوری طرح سے متاثر کر رہا ہے۔ تیسرا بڑا فتنہ جو عالمی سطح پر پھیل رہا ہے، وہ اقتصادی اور معاشی عدم مساوات کا فتنہ ہے۔ دنیا کی کُل دولت کا ایک بڑا حصہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو چکا ہے، جبکہ دنیا کی اکثریت غربت، بھوک اور افلاس کا شکار ہے۔ یہ معاشی نا ہمواری فتنوں کو جنم دے رہی ہے، کیونکہ جب لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات میسر نہیں آتیں، تو پھر لوگ بغاوت اور احتجاج کی راہ اپناتے ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم نے معاشی انتشار کو مزید بڑھاوا دیا ہے۔ چوتھا فتنہ سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں سیاسی نظام تباہی کی جانب گامزن ہیں اور حکومتوںکی ناکامی عوام میں مایوسی اور غصے کو بڑھا رہی ہے۔ سیاسی لیڈرز کی خود غرضی، بد عنوانی اور ذاتی مفادات نے عوامی مسائل کو نظر انداز کیا، جس کے نتیجے میں لوگ فتنہ انگیزی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ماحولیاتی فتنہ وہ پانچواں فتنہ ہے جو اس وقت دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ انسانوں نے ترقی کے نام پر قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا، جنگلات کا صفایا کیا اور آلودگی کے ذریعے روئے زمیں کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ آج بنی آدم کی رہائش گاہ کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے، جو نہ صرف موسموں میں غیر معمولی تبدیلیاں لا رہی ہے بلکہ قدرتی آفات، قحط، اور پانی کی قلت جیسی مشکلات کو بھی جنم دے رہی ہے۔ یہ ماحولیاتی فتنہ انسانوں کی بقا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے جس کی لپیٹ سے دنیا کا کوئی بھی حصہ محفوظ نہیں۔ جدید دور میں سائبر کا فتنہ بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے غلط معلومات، افواہیں اور نفرت انگیز مواد تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے، جس سے معاشرتی انتشار میں ہر طلوعِ آفتاب کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہیکنگ، سائبر کرائم اور ڈیجیٹل دھوکہ دہی کے ذریعے نا صرف افراد بلکہ بڑے ادارے اور حکومتیں بھی متاثر ہو رہی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سائبر کرائم کا یہ فتنہ دنیا کی سلامتی اور امن کو درپیش ایک چیلنج بن چکا ہے۔ کرہ ارض پر فتنوں کا پھیلائو محض ظاہری مسائل تک محدود نہیں، بلکہ یہ فتنہ انگیزی گہرائی میں معاشرتی، روحانی اور نفسیاتی سطحوں تک سرایت کر چکی ہے۔ دنیا میں تیزی سے پھیلنے والے ان تمام فتنوں کا سب سے بڑا سبب انسان کا اپنے مقصدِ حیات سے بھٹک جانا، خالقِ دو جہاں سے دوری، مادہ پرستی اور دنیاوی خواہشات کی طرف غیر معمولی جھکائو اور اخلاقی و روحانی اقدار کا فقدان ہے۔ خود غرضی، مادہ پرستی اور بے حساب خواہشات کے حصول کی دوڑ نے انسان کو اخلاقی زوال کی گہری کھائی میں دھکیل دیا ہے۔ جب انسان اپنے اصل مقصدِ حیات کو فراموش کرتے ہوئے دنیاوی مفادات کے پیچھے بھاگتا ہے، تو پھر فتنہ انگیزی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ان تمام فتنوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے ابنِ آدم کو معاشرتی ہم آہنگی، انصاف، اجتماعی شعور، اتحاد اور انسانیت کی فلاح اور مساوات کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرتے مذہب، رنگ، نسل اور قومیت کی بنیاد پر نفرت اور تعصب سے دور رہتے ہوئے ایک دوسرے کو برداشت کر نا سیکھنا ہو گا، اپنے اجتماعی شعور کو بیدار کرنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرتی نظام کو درست سمت میں لے جانے کے لیے موثر حکمت عملی اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیم، انصاف اور انسانی حقوق کا فروغ ہی ان تمام فتنوں کا حل ہو سکتا ہے، جب تک روئے زمیں پر انصاف، برابری اور امن کا قیام ممکن نہیں ہوتا، یہ فتنہ انگیزیاں برقرار رہیں گی اور دنیا اسی طرح فتنوں کی زد میں رہے گی۔ معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی انصاف کے بغیر معاشرے میں کسی صورت امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک زمین پر بسنے والے ہر انسان کو اس کا حق نہیں ملے گا، جب تک سیاسی نظام درست نہیں ہو گا، حکمران عوام کی فلاح و بہبود کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کریں گے، اقتصادی نظام میں تبدیلیاں نہیں لائیں گے، جب تک دولت کی منصفانہ تقسیم اور معاشی استحکام ہر فرد کو میسر نہیں ہو گا تب تک اولادِ آدم کی یہ رہائش گاہ نت نئے فتنوں کی لپیٹ میں رہے گی۔

تبصرے بند ہیں.