سوشل میڈیا اور جعلی خبریں

100

آج سے دو دہائیاں قبل جب 2004 میں فیس بک کو پہلی بار امریکہ میں لانچ کیا گیا تو اسکو ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت سے دیکھا گیا۔ کیونکہ دنیا بھر میں باہمی روابط اور معلومات شیئرنگ کا انداز ہی بدل گیا۔ گلوبل ویلیج کا کانسپیٹ لوگوں کو سمجھ میں آنے لگا کہ کیسے ایک ایپ نے پوری دنیا ہی لا کر آپ کی پلیٹ میں رکھ دی۔ مگر گذشتہ ایک دہائی سے مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسا کہ فیس بک، ایکس، انسٹا گرام، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ کی عوام تک لامحدود رسائی نے جہاں لوگوں کو باخبر رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے وہیں پر اس کے منفی استعمال نے بھیانک صورتحال کو جنم دیا ہے۔ ڈیجیٹل ورلڈ کے حیرت انگیز طور پر منفی اثرات پر ساری دنیا میں تشویش پائی جا رہی ہے کیونکہ سائبر بولنگ، آن لائن ہراسمنٹ، پُرتشدد واقعات اور مجرمانہ سرگرمیوں سے انسانی صحت اور زندگی بری طرح متاثر ہونے لگی ہے۔ سوشل میڈیا پر جعلی خبروں اور پروپیگنڈا نے دنیا بھر کو سوچنے اور تحقیق کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے جادو کو کیسے قابو میں کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ترقی یافتہ ممالک بھی سوشل نیٹ ورکس کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں۔ حال ہی میں لندن میں ساتھ پورٹ واقعہ ہوا جس میں تین کمسن لڑکیوں پر چاقو سے قاتلانہ وار کیے گئے۔ ایکس پوسٹ پر ڈس انفارمیشن پھیلائی گئی کہ ان بچیوں پر حملہ کسی مسلمان نے کیا ہے، جس کے بعد لندن میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ پوسٹ وائرل ہونے پر پناہ گزینوں اور اینٹی مسلم فسادات شروع ہو گئے، جہاں لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا وہیں مسلمان الگ اذیت کا شکار بنے تاہم برطانیہ میں قانون جلد حرکت میں آ گیا اور پُرتشدد مہم کو کچل ڈالا۔ برطانیہ میں ان لائن سکیورٹی ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پر جعلی خبریں پھیلانے والوں اور قتل کی دھمکیاں دینے والے حضرات کو پانچ سال قید کی سزا سنانے کا قانون ہے۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کی کہانی یکسر مختلف ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں سوشل میڈیا پر جعلی خبروں اور پروپیگنڈہ انسانی زندگی کے زیاں کا سبب بن رہا ہے علاوہ ازیں چادر اور چار دیواری کا تصور بھی پاکستانی معاشرے کی اقدار سے ماند پڑنے لگا ہے۔ مائوں، بہنوں کی وڈیوز اور جنسی ہراسگی سوشل میڈیا پر عام ہونے لگی ہے۔ جہالت کا دور دورہ ہے، آؤ دیکھا نہ تاؤ بس جس کے ہاتھ میں موبائل ہے اس کے ہاتھ جو لگا اس نے سوشل میڈیا کی زینت بنا دیا۔ پاکستان میں جب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا استعمال عام ہوا ہے تب سے بہت ساری معاشرتی برائیوں نے جنم لیا ہے جو معاشرے کی سیاسی، سماجی اور اخلاقی گراوٹ کا باعث بن رہی ہیں۔ ایک ایسا ملک جس میں 72 ملین سے زیادہ ایکٹو سوشل میڈیا صارفین ہوں وہاں کسی بھی واقعے یا خبر کو وائرل کرنے میں کتنا ہی وقت درکار ہو گا اور یہ تعداد ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والا مزدور بھی سوشل میڈیا کا استعمال کر رہا ہے۔ بات اب صرف شہروں تک محدود نہیں رہی۔ سوشل میڈیا کی ایک خوبی یا خامی تو یہ ہے کہ کوئی بھی خبر چند سیکنڈ یا منٹ میں آپ تک پہنچ جاتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ ہر وقت سوشل میڈیا پر ایکٹو رہتے ہیں۔ مین سٹریم میڈیا اب اپنی اہمیت کھو بیٹھا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری معلومات پرکمنٹس کے ذریعے ہماری نوجوان نسل اپنی فرسٹریشن نکالنے لگی ہیں۔ سوشل نیٹ ورکس پر ایک طوفان بدتمیزی برپا ہے۔ اپنے ناپسندیدہ سیاسی و سماجی شخصیات اور ان سے متعلق خبروں پر گالم گلوچ ایک ٹرینڈ بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں اب سوشل میڈیا پلیٹ فام کو جعلی اور من گھڑت پروپیگنڈا اور بیانیے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں تک حساس خبریں اور مواد شائع کر کے عوام کو اشتعال دلا کر مذموم مقاصد کو حاصل کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تو سوشل میڈیا کی صورت میں لوگوں کے ہاتھ ایک ایسا ہتھیار لگ گیا ہے جسے وہ اپنے مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ توہین رسالت، جنسی زیادتی اور غیرت سے متعلق اکثر جعلی خبریں پھیلا کر عوام کو قانون ہاتھ میں لینے پر اکسایا جاتا ہے۔ ایسی حساس خبریں جنگل میں آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں۔ خواتین کو خاص طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خواتین کی تصویریں، وڈیوز اور اکثر فوٹو شاپ تصویریں اپ لوڈ کر کے ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ اپ اندازہ لگائیں کہ آج سے تقریباً 12 سال قبل کوہستان سے تعلق رکھنے والی 5 لڑکیاں اپنی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کی وجہ سے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ صرف دو لڑکوں کے ڈانس پر تالیاں بجانا ان کا گناہ ٹھہرا۔ اسی طرح 2023 میں کوہستان میں ایک لڑکی کی فوٹو شاپ کی گئی تصاویر کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا، معاملہ کی تصدیق سے قبل ہی اس کی جان لی جا چکی تھی۔ سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ تو سب کو یاد ہو گی جس نے سوشل میڈیا سے شہرت پائی بالآخر اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں غیرت کے نام پر قتل ہو گئی۔ قندیل بلوچ کے قتل کی شہ سرخیاں بین الاقوامی میڈیا کی زینت بھی بنیں۔ 2017 میں ایک ٹاپر خاتون سٹوڈنٹ نے بلیک میلنگ سے تنگ آ کر خودکشی کر لی۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے بلیک میلنگ اور ہراسمنٹ کے واقعات میں تیزی آئی ہے، سیکڑوں واقعات آئے روز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ توہین رسالت کے معاملات میں سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ پوسٹس سے قیمتی جانیں لقمہ اجل بن چکی ہیں۔ خیبر پختونخوا کی یونیورسٹی کا واقعہ ہی لے لیں کہ کیسے ہجوم نے ایک ہونہار طالب علم مشال خان کو توہین رسالت کی پاداش میں 2017 میں قتل کر دیا اور وجہ سوشل میڈیا پوسٹ بنی۔ حال ہی میں لاہور کے نجی کالج کا واقعہ دیکھ لیں، بچی کے ساتھ مبینہ زیادتی کے واقعے میں تصدیق یا تحقیق کیے بغیر پورے ملک میں سوشل میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ طلبا سراپا احتجاج ہیں کہ ان کو انصاف چاہیے جب کہ لڑکی کے والد کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ بحیثیت قوم ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ایسا گھناؤنا واقعہ پیش آ بھی جائے تو کبھی متاثرہ خاتون کی وڈیو اور تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہ کی جائیں۔ اس طرح سے تو آپ اس کو پوری دنیا میں رسوا کرنے چل پڑے ہیں۔ اس ڈیجیٹل دور میں نگرانی کے کمزور میکانزم کی وجہ سے عزت اور جان دونوں محفوظ نہیں، سوشل میڈیا یا ڈیجیٹل ورلڈ میں کیسے رہنا ہے اس کی تربیت ہمارے معاشرے کا حصہ نہیں۔ ہم تو ابھی تک پتھر کے دور سے ہی نہیں نکلے۔ لہٰذا احتیاط ہی بہترین راستہ ہے۔ سوشل میڈیا کے بھیانک اثرات سے محفوظ رہنے کیلئے اسکے استعمال کے طور طریقے خود بطور مہذب شہری بدلنا ہونگے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں سائبر قوانین تو بہت ہیں لیکن عام عوام کی حفاظت پر ان کا اطلاق نہیں ہوتا۔

تبصرے بند ہیں.