شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ایک جنگل میں مراقبہ کر رہے تھے کہ اچانک منظرنامے میں نور ظاہر ہوا جس نے پورے ماحول کو منور کرکے رکھ دیا۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ متوجہ ہوئے… اے عبدالقادر جیلانیؒ ہم تیری عبادت سے اس لئے خوش ہیں کہ ہم نے تجھ سے قلم اٹھا لیا ہے۔ اب تو جو چاہے کر تیرے گناہ تیرے اعمال نامہ میں نہیں لکھے جائیں گے۔ جب عبدالقادر جیلانیؒ نے یہ بات سنی تو انہوں نے فوراً اس واقعہ کو قرآن اور حدیث میں پیش کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اللہ تعالیٰ نے نبی پاکؐ سے فرمایا آپ عبادت کرتے رہیں حتیٰ کہ آپ اسی حالت میں وصال فرما جائیں تو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے کہا کہ نبی پاکؐ کو تو خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا تھا پھر عبدالقادر جیلانیؒ کی کیا مجال کہ اس پر سے قلم اٹھا لیا جائے لہٰذا یہ شیطان کا معاملہ لگتا ہے تو انہوں نے فوراً کہا لا حول ولہ قوۃ۔ ان کا یہ پڑھنا تھا کہ شیطان جسے یہ گولے کی طرح لگا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا اور بھاگتے بھاگتے وہ دوسرا حملہ بھی کر گیا اور کہا کہ اے عبدالقادر جیلانیؒ میں نے اس چال میں ہزاروں اولیاء کرام کو گمراہ کر دیا مگر تو اپنے علم سے بچ گیا۔ یہاں پھر شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے لا حول ولا قوۃ پڑھا اور کہا کہ اے مردود میں اپنے علم کی وجہ سے نہیں بچا، میں اپنے پروردگار کے فضل اور اس کی عطاء سے بچا ہوں۔
درج بالا واقعہ کے اندر کئی باتیں ایسی ہیں جو آج میرے لکھے گئے کالم کا احاطہ ضرور کریں گی۔ بات صرف قابل غور ہے کہ آج کے دور میں بہت کم لوگ دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حالات و واقعات کو دیکھ کر آنے والے کل کی اچھی بری راہوں کا تعین کرتے ہیں۔ الزامات… الزامات اور الزامات…انتخابات کسی کے بھی ہوں، ہارنے والے جب ہار جاتے ہیں تو وہ خوش دلی کے ساتھ ہار کو دل سے قبول نہیں کرتے۔ جب انتخابی میدان لگتا ہے تو پھر بڑے دعوے کئے جاتے ہیں صرف جیت کے لئے۔ ان انتخابات میں کسی ایک نے تو میدان کو جیتنا ہے۔ جیتنے والا تو جیت جاتا ہے، ہارنے والا میں نہ مانوں کا نعرہ لگا دیتا ہے۔ میں نے گزشتہ دنوں اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ’’میجارٹی از اتھارٹی‘‘ یعنی جب تک آپ زمینی حقائق کو جانتے ہوئے بھی الزامات کی سیاست کو ہوا اور جلتی آگ میں بجائے پانی ڈالنے کے تیل ڈالیں گے تو پھر نفرتیں بڑھتی ہیں۔ ان بڑھتی نفرتوں کو ختم اور دل میں ان کدورتوں کو نکالنا ہے جو دوران انتخابات پیدا ہوئیں۔ اب کون جیتا کیوں جیتا اور ہارنے والا کیوں ہارا۔ میرے نزدیک جیتنے والوں کو شکر ادا کرنا چاہئے کہ خداتعالیٰ نے ان کو عزت دی وہ کہتے ہیں کہ…بے شک اے اللہ اگر تو ہم پر کرم نہ فرماتا تو ہم ہرگز کامیاب نہ ہوتے… اے میرے مولا، میں تیری رضا سے کامیاب ہوا۔
لاہور چیمبر کے انتخابات کے بعد ابھی بھی دونوں اطراف سے الزامات جنگ کی کیفیت کا سماں اور دونوں اطراف سے الزامات کی بارش جاری و ساری ہے۔ حیران کن امر یہ کہ ہارنے والے تو الزام لگاتے ہیں یہاں جیتنے والے بجائے وہ اپنی جیت کا شکر بجا لائیں وہ بھی سوشل میڈیا پر تابڑ توڑ حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہ ٹریڈ سیاست کی روایات نہیں ہیں، ٹریڈ باڈی کا ایک قانونی ادارہ ڈی جی ٹی او ہے اب اس کی کورٹ میں ہے اور فیصلہ اس نے کرنا ہے کہ دھاندلی ہوئی یا نہیں اور اس پر قانون کہاں کھڑا ہے۔ میری گزارشات تو یہ ہیں کہ جیتنے والے کو اپنا بڑا دل کرنا ہوگا اور کھلے دل کے ساتھ ہارنے والوں کے پاس جا کر مثبت پیغام دینا چاہئے کہ آئیں آج ہم جیتے ہیں یہ مقابلے کا رحجان ہے اگلی بار پھر میدان میں اترنا ہے ہو سکتا ہے کہ آج ہارنے والے کل جیت جائیں تو پھر کیوں الزامات کا عمل دہرایا جا رہا ہے، اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ ان غلط روایات کو وقت کی گرد میں دفن کریں کہ آپ سیاست دان نہیں نہ آپ کا کام سیاست کرنا ہے۔ نہ ایک دوسرے کو ’’جماعتے‘‘ ، پی ٹی آئی اور ن لیگ کے لیبل اپنے اوپر لگوانے ہیں۔ آپ اس ملک کی بڑی ٹریڈ باڈی کا حصہ ہیں۔ آپ کا کالر اگر سفید ہے تو اس کو سفید ہی رکھیں، الزامات کی آڑ میں اس پر داغ نہ لگنے دیں اور آپ کا کام تجارت کرنا، سیاست آپ کا کھیل نہیں تو پھر آپ اس کھیل کا حصہ کیوں بن رہے ہیں؟ میرے نزدیک حالات کو درست سمت پر لے جانے کے لئے جب تک جیتنے والے اپنا بڑا دل نہیں کریں گے حالات بجائے سنورنے کے مزید بگڑیں گے پاکستان آج اپنی معیشت کے برے بحران سے گزر رہا ہے۔ حکومت کے بڑے اسٹیک ہولڈر ہونے کے ناطے بجائے ذاتی اختلافات، ذاتی رنجشوں اور ایک دوسرے کو نیچا دکھائیں، ایک جگہ اکٹھے ہو کر ملک کے لئے کچھ کریں کہ آپ ہی نے اس ملک کے معاشی حالات کو بہتر کرنا ہے اور یہاں یہ بھی سوچیں کے کیا اگلے دو سال اسی طرح گزارنے ہیں یا پھر ملکی مفاد کی خاطر ایک دوسرے کی آواز بننا ہے، کیوں اپنے ہی گھروندوں میں تماشا لگا رکھا ہے پھر بقول منیر نیازی کے…
وقت کس تیزی سے گزرا روزمرہ میں منیر
آج کل ہوتا گیا… اور دن ہوا ہوتے گئے
یہ دو سال جن کو ملے ہیں ان کو دیکھیں کے وہ ان دو سالوں میں تاجر برادری کے لیے کیا کرتے ہیں؟ اور یہ دو سال بھی گزر جائیں گے اور یہ بات جان لیں کہ وقت کے ستم بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ انسان کی معمولی سی غلطی، معمولی سی رنجش یا معمولی سا الزام کسی کے بھی گلے پڑ سکتا ہے۔ اس بات کو بھی سمجھیں کہ وقت کی گرد پھیلتی جا رہی ہے۔ کیا لاہوری تاجر آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں لاہور چیمبر کے حالیہ انتخابات سے پہلے کھڑے تھے۔ ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے آگے بڑھیں کہ یہی وقت ہے جب آپ کو ہارجیت کے الزامات سے نکل کر ایک مشترکہ جامع حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ ایسی حکمت عملی جس سے ٹریڈز کے تمام گروپس کو فائدہ پہنچے۔ وہ کہتے ہیں کہ تالی ایک نہیں دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ میرے نزدیک آج بڑے گروپس کی بڑی لیڈرشپ کا بڑا امتحان اب شروع ہوا ہے۔ آج وہ فیصلہ کر لیں کہ کیا الزامات کی سیاست کھیلنی ہے یا تاجروں کے مفاد کو آگے لے کر چلنا ہے۔ یہ ہے وہ امتحان۔ میاں انجم نثار کا یہ امتحان ہے۔ میاں سہیل نثار کا یہ امتحان ہے۔ میاں مصباح الرحمن کا یہ امتحان ہے۔ علی حسام اور لاہور چیمبر کے ایوان میں بیٹھے صاحبان اقتدار کا… آج جب سوشل میڈیا پر پھیلے الزامات کو سنتے اور پڑھتے ہیں تو اس تجارتی ماحول میں کشیدگی، ذہنوں میں انتشار اور روح میں بے سکونی کچھ اس طرح رچی بسی دکھائی دیتی ہے کہ یہ احساس ندامت ہے نہ زخموں کا علاج۔ پھل ہمیشہ جھکے کو ملتا ہے لہٰذا ضرورت ہے کہ تلخ حقیقت اور میچورٹی اور اتھارٹی کو تسلیم کرنا ہوگا۔
اور آخری بات…!
نفرت، الزامات، سوشل میڈیا پر ایک دوسرے پر حملے اب ایسے ماحول کو ختم کریں اور ان دیواروں کو گرا دیں جو لاہور کی ٹریڈ سیاست اور بزنس کے ماحول کو خراب کئے ہوئے ہے۔ کسی ایک نے تو قدم آگے بڑھانا ہے تو بسم اللہ کریں جیتنے والے… رہے نام اللہ کا…
تبصرے بند ہیں.