سوشل میڈیاکا طوفان

70

اسلام وہ واحد مذہب ہے جس میں شخصی آزادی اور انسانی حقوق کی حفاظت واحترام کاواضح الفاظ میں حکم دیاگیا ہے۔ شخصی آزادی کی سب سے بڑی ضمانت حضورِ اکرم ﷺ نے حج کے موقع پراپنے آخری خطبے میں یوں دی ’’تمہاری جانیں، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ویسی ہی حُرمت رکھتی ہیں جیسی کہ حج کے اِس دن کی حُرمت ہے‘‘۔ اِس لحاظ سے اسلامی معاشرے میں حکومت کافرض ہے کہ وہ شخصی ٓزادی کی ذمہ داری لے۔ حضرت علیؓ نے فتنہ خوارج کووارننگ دی تھی کہ جب تک وہ فسادبرپا نہیں کریں گے اُن کے خلاف لڑائی کی ابتداء نہیں ہوگی۔ اسلام دینِ فطرت ہے جس میں اعتدال کی راہ اپنائی گئی ہے اِسی لیے ایسی بے مہار آزادی جس سے سماج میں انتشار اور بدامنی پیداہو یا فساد فی الارض کاخطرہ ہو اسلام اُس کی مکمل نفی کرتا ہے۔ اِسی لیے اسلام میں حقوق وفرائض باہم مربوط ومنسلک ہیں۔
اِسی شخصی آزادی کی آڑمیں ہمارے ہاں طوفانِ بدتمیزی بپاہے جس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیاہے جس پربلاشبہ ایک فتنہ پرور جماعت کاقبضہ ہے۔ سوشل میڈیاکی مشہور سائیٹس فیس بُک، انسٹاگرام اور ٹویٹر پیغام رسانی کا ذریعہ ہیں لیکن ہمارے ہاںایک جماعت نے اسے فتنہ وفساد کے لیے مختص کردیا ہے۔ سوشل میڈیاپر ہروقت نہ صرف فیک نیوزکی بھرمار ہوتی ہے بلکہ گالی گلوچ اور عزتیں اُچھالنے کاکام بھی لیاجاتا ہے۔ بدقسمتی سے ایک جماعت سوشل میڈیاکو فسادفی العرض کے لیے استعمال کررہی ہے۔ اُدھر ہماری عدلیہ کایہ حال کہ حکومت نے فیک نیوزکے خلاف قانون بنایاجسے عدلیہ نے معطل کردیا۔ 14اکتوبر کو لاہورکے ایک نجی کالج کی طالبہ کے بارے میں سوشل میڈیاپر جنسی زیادتی کی فیک نیوز چلی اور سانحہ 9مئی کی طرح پورے پنجاب میں پھیل گئی۔ اِس خبر کے سنتے ہی پورے پنجاب کے طلباء وطالبات احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پرنکل آئے۔ یہ فیک نیوز تحریکِ انصاف کے یوٹیوبر نے پھیلائی۔ جس پراُس انتشاری کوپکڑ لیاگیا لیکن عدالت نے اگلے ہی دن اُسے رہا کردیا حالانکہ وہ فیک نیوز پھیلانے کااقرار بھی کرچکا تھا۔ جب ہماری عدالتیں اِن انتشاریوں کے خلاف ماںکے جیسا سلوک کریں گی تو کل کلاںوہ بڑے بدمعاش بن کراُبھریں گے۔عدلیہ کے ایسے ہی فیصلے ہم پہلے بھی دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ بندیالی کورٹ نے تحریکِ انصاف کو فائدہ پہنچانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 63-A کی ایسی تشریح کی جو مکمل طورپر غیرآئینی تھی۔ پھر 12جولائی 2024ء کو فُل کورٹ کے 8ججز صاحبان نے مخصوص نشستوں کے بارے میںایسا فیصلہ دیاجس پر خود تحریکِ انصاف کے وکلاء بھی حیران رہ گئے۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں مخصوص نشستوں کے فیصلے کے لیے 13رکنی فُل کورٹ تشکیل دیاگیا۔ اِس کیس میں مدعی سُنی اتحادکونسل تھی لیکن سپریم کورٹ کے 8ججز صاحبان نے اکثریتی فیصلہ دیاکہ نہ صرف مخصوص نشستیں بلکہ آزاد ارکانِ قومی اسمبلی بھی تحریکِ انصاف کاحصہ ہیں۔ حیرت یہ کہ تحریکِ انصاف اِس کیس میں نہ تومدعی تھی اور نہ ہی مخصوص نشستوں کی دعویدار لیکن ’’جو چاہے آپ کاحسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘۔ ایسے غیرآئینی فیصلوں سے تنگ آکر حکومت نے آئین میں ترمیم کاڈول ڈالا تاکہ توازن قائم ہوسکے کیونکہ پارلیمنٹ جوکہ سپریم ہے اُسے ہماری سپریم کورٹ کے کچھ معزز ججز سپریم ماننے کو تیار نہیں تھے۔ اب آئینی ترمیم کا 26 نکاتی ایجنڈا تیار ہو چکا۔ اُمید ہے کہ اگلے ایک دو دنوں میں اِس آئینی ترمیم پرپیش رفت سامنے آجائے گی۔
حقیقت یہ کہ فیک نیوزکے حوالے سے تحریکِ انصاف باقاعدہ پلاننگ کرکے 9مئی ٹو کرنا چاہتی تھی کیونکہ باربار احتجاج کی کالوں کے باوجود عوام باہر نکلنے کوتیار نہیںتھے۔ تحریکِ انصاف کامنصوبہ تویہی تھاکہ بنگلہ دیش کی طرح طلباء وطالبات کو بھڑکاکر سڑکوں پر لایا جاسکے تاکہ انقلاب بپا ہوسکے۔ اُنہی دنوں اسلام آبادمیں شنگھائی تعاون تنظیم کااجلاس بھی منعقد ہونے والا تھا۔ تحریکِ انصاف نے پہلے تو 15اکتوبر کوڈی چوک اسلام آباد میں احتجاج کا منصوبہ بنایا تاکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے مندوبین پر پاکستان کامنفی تاثر قائم کیا جاسکے۔ اُدھر تحریکِ انصاف کی انتشاری سیاست کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت نے بھی مکمل بندوبست کیاہوا تھاجس کی وجہ سے احتجاج کی یہ کال واپس لینی پڑی۔ پھرفیک نیوزکے ذریعے 14 اکتوبر کو انتشار پھیلانے کی کوشش کی گئی، یہ منصوبہ بھی ناکام ہوا کیونکہ وزیرِاعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نوازنے فوری ایکشن لیتے ہوئے اِس فیک نیوزکی انکوائری کاحکم دیااور تیسرے دن پریس کانفرنس کرتے ہوئے سارا کچاچٹھا کھول کے رکھ دیا۔ اِس شرارت میں زرتاج گُل کی بہن شبنم گُل بھی شامل تھی جس نے لاہورکالج فاروومِن یونیورسٹی کی طالبات کو اُکسایا۔ محترمہ مریم نوازنے جب پریس کانفرنس میں شبنم گُل سے اِس واقعے کے بارے میں سوال کیاتو اُس نے کہاکہ طالبات کواِس واقعے کاپتہ ہی نہیں تھالیکن وہ احتجاج کرنے آگئیں۔ جب محترمہ مریم نوازنے اُسے کہاکہ وہ بتائیں جو آپ مجھے پہلے بتاچکی ہیں تو شبنم گُل لیت ولعل سے کام لینے لگی۔ زیادتی کے اِس معاملے پربنائی گئی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آچکی ہے جس کے مطابق کسی بھی لڑکی سے زیادتی کاکوئی ثبوت ملانہ کوئی عینی شاہد سامنے آیا۔ اِس واقعے پرکوئی ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ ہی کوئی میڈیکل رپورٹ سامنے آئی۔ یہ ہنگامہ آرائی سوشل میڈیا کے پریشر میں آکر کی گئی جس کی ترتیب تحریکِ انصاف کے یوٹیوبر ز اور صحافیوں کے ہاتھوں ہوئی۔ اِسی لیے محترمہ مریم نوازنے پریس کانفرنس میںکہا ’’میں پیغام دینا چاہتی ہوں صحافیوں، وی لاگرز کے خلاف کریک ڈاؤن ہوگا، چھوڑوں گی نہیں‘‘۔
ارضِ وطن میں ساری ہنگامہ آرائی اڈیالہ جیل کے قیدی بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر ہورہی ہے کیونکہ اُنہیں ملک سے کوئی غرض نہ قوم سے۔ اُن کاایک مخصوص ایجنڈا ہے جس کی تکمیل کے لیے وہ ہمہ وقت کوشاں رہتے اور جیل سے باہر پیغامات بھیجتے رہتے ہیں۔ اُن کے بارے میں برطانوی اخبار ٹیلی گراف کا حالیہ مضمون میرے سامنے ہے۔ ٹیلی گراف نے لکھاکہ عمران خاں خودپسند ہے۔ اگروہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر بن گئے تو وہ مغرب دشمنوں کی مدد کریںگے کیونکہ وہ طالبان کے حامی ہیں۔ وہ 2018ء میں ہیراپھیری سے وزیرِاعظم بنے جس کوپاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے طاقتور ادارے کی واضح، جارحانہ اور بے جامداخلت قرار دیاتھا۔ اُنہیں 1980ء کی دہائی میں کرکٹر یامحض احمقانہ داستانوں کے طورپر یاد کیاجاتا ہے۔ اُن کے بیہودہ ریکارڈ کے باوجود ابھی بھی برطانیہ کی چند شخصیات اُن کی حمایت کررہی ہیں۔ یہ سب کچھ پاکستان کے کسی اخبارنے نہیں برطانیہ کے اخبار نے لکھا ہے جبکہ بانی پی ٹی آئی کے نزدیک مغرب کواُن سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ واقعی وہ مغرب کو اور مغرب اُنہیں بہت اچھی طرح سے جانتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.