’’لمحوں کی غلطی، صدیوں کی سزا‘‘

84

’’جو لوگ پاکدامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر وہ چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں 80کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، یہ فاسق لوگ ہیں… (سورۃ النور 47)
تہمت کسی پر نہ لگائیں۔ یہ الفاظ مرد اور عورت دونوں کے لیے ہیں اور دونوں کی سزا بھی متعین ہے۔ گزشتہ دنوں پنجاب کالج کے حوالے سے ایک دلسوز واقعہ کی سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی۔ ہمارے نزدیک یہ ویڈیو نہیں تھی بلکہ اپنی گھٹیا سیاست چمکانے کے لئے ایک بچی کی زندگی برباد کرنے کی گھٹیا سازش کی گئی اور ایک دلخراش، دل سوز اور پریشان کن واقعہ کو منصوبہ بندی کے تحت سوشل میڈیا پر ابھارا اور پھر نوجوان بچوں اور بچیوں کو غلط انداز میں دکھایا اور ہنگامہ آرائی کی کوششیں کی گئیں۔ خاص کر ایک سیاسی جماعت تحریک انصاف نے اس گھناؤنے منصوبے کے تحت جہاں افراتفری کا ماحول پیدا کیا وہاں یہ بات بھی کہی جانے لگی کہ یہ تماش بین اپنے سیاسی مفادات میں اب گھر کی عزتوں سے بھی کھیلنے لگے ہیں۔ خدارا! آپ سیاست ضرور کرو مگر ایسے گھناؤنے عمل سے تم معاشرے میں فیک نیوز کے ذریعے سماجی ابال کسی خانہ جنگی کو ہوا یا احتجاج کے نام پر پاک دامن بچیوں کی عزتوں سے نہیں کھیل سکتے۔ اس ملک کی اچھی سیاست کو تم لوگوں نے داغدار کیا۔ ملک کی نوجوان نسل کی غلط ذہن سازی تم نے کی۔ کتاب کی بجائے نوجوان کے ہاتھ میں ڈنڈا اور پستول تم نے تھمائی اور اب اپنے گندے سیاسی مقاصد کے لئے سکولز اور کالجز کی بچیوں پر گھناؤنے الزامات کی آڑ میں لوگوں کو دنگا فساد کی ترغیب دے رہے ہو۔ کچھ تو خوف خدا کرو۔ کتنا اور گرو گے۔ گرنے کے بعد… پنجاب کالج جیسے بڑے اور منظم گروپ کے خلاف سوشل میڈیا پر جنہوں نے مہم چلائی۔ یہ کون سے مناظر تھے جو صوبے میں تعلیمی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی گہری سازش کرتے نظر آئے اور پھر منظم طریقے سے دوسرے تعلیمی اداروں کو غلط پیغامات بھجوا کر ان کو سڑکوں پر لانے کی باتیں کیں۔
ہم جس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کا نوجوان آگے ہی بڑھتی خلیج، بے روزگاری اور گھٹن کا شکار ہے۔ دیکھیں ہر عمل کے پیچھے ایک ردعمل ہوتا ہے۔ اس معاشرے کے ستائے نوجوان کو بجائے تم اسے اچھا مستقبل دو تم اس کو مزید برباد کر رہے ہو۔ اتنے بڑے واقعہ کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ اس تمام ماجرے کے پیچھے کیا ہوا؟ کس نے کیا؟ کیوں کیا؟ اور یہ سازش کہاں تیار کی گئی۔ ان سب سے میرا معصومانہ سوال یہ بھی ہے کہ یہ گھناؤنی سازش اس دن ہی کیوں کی گئی جب دن پاکستان ایس سی او کانفرنس کی میزبانی کر رہا تھا اور دنیا کو ایک پیغام یہ بھی جا رہا تھا کہ پاکستان اب گرے لسٹ سے نکل گیا ہے۔ یہ پیغام بھی جا رہا تھا کہ پاکستان اب دنیا میں تنہا نہیں ہے۔ یہ پیغام بھی جا رہا تھا کہ دہشت گردی کو کچلنے کے لیے ہمارا کردار بہت اہم ہو گیا ہے۔ دنیا کو یہ پیغام بھی جا رہا تھا کہ ہم امن پسند قوم ہیں پھر اس دن ایک معصوم بچی پر زیادتی کا الزام لگا کر اس واقعے میں ملوث گھٹیا کردار دنیا کو کیا پیغام دینا چاہ رہے تھے۔ اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ پاکستان تو اب اپنی تمام تر رعنائیوں اور توانائیوں کے ساتھ پھر سے ابھر رہا ہے اور تم نے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والی معصوم بچیوں کو بھی نہیں بخشا… افتخار عارف کا یہ شعر بہت یاد آ رہا ہے:
کوئی تدبیر کرو، وقت کو روکو یارو
صبح دیکھی نہیں، شام ہوئی جاتی ہے
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
پاکستان میں ریپ کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہیں اور اگر کوئی نئی بات ہے تو وہ بچیوں پر لگنے والے سنگین الزامات، ذاتی دشمنی اور ذاتی مفاداتی مقاصد کے لیے آئے روز ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق جو میرے پیارے دوست شہزاد خان ابدالی نے دی کہ 47فیصد ریپ کے الزامات غلط نکلے اور دکھ تو اس بات کا بھی ہے کہ اب ان ریپ کے واقعات کو سیاسی رنگ دیا جانے لگا ہے اور طلباء کے اندر غلط روش پیدا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اس کو روکنے کے لئے ان کے سرغنوں کے سر کچلنے ہوں گے۔
بہت سے سوالات میں ایک سوال تو یہ بھی ہے کہ وہ طالبہ جس کا تعلق پنجاب کالج سے منسوب کیا گیا، اس طالبہ سے متعلق مبینہ زیادتی کے واقعہ کو سوشل میڈیا پر کیوں کہرام کی شکل میں پھیلایا گیا اور کیوں طلبہ و طالبات کی ایک تعداد سڑکوں پر احتجاج کر رہی ہے؟ یہاں یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ اس واقعہ پر مزید کچھ کہنے سے پہلے ماضی میں بھی غلط حقائق رقم کئے گئے اور بحیثیت مجموعی قوم ہم پاکستانی کتنے کچے کانوں کے ہیں اور اس وقت تو سوشل میڈیا بھی نہیں تھا۔ ہر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے آگے پھیلانے میں بڑے ماہر ہیں۔آپ کو یاد ہوگا کہ دسمبر 2021ء کو سیالکوٹ میں ہماری جذباتی قوم نے ایک سری لنکن فیکٹری منیجر کو گستاخی کے الزام پر نہ صرف قتل کر دیا بلکہ بعد میں اس کی لاش کو بھی جلا دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ معاملہ کچھ اور تھا، اور گستاخی کا الزام لگا کر اس کو قتل کر دیا۔ پولیس اور انتظامیہ کے آنے سے پہلے ہی جذباتی عوام منیجر کو قتل کر چکی تھی۔ نہ کوئی تحقیق ہوئی، نہ مقدمہ چلا اور جس نے دیکھا وہ کرنا شروع کر دیا۔
اپریل 2017ء میں ہماری پڑھی لکھی اسی جذباتی قوم نے مردان میں مشعال نامی ایک طالب علم کو گستاخی کا الزام لگا کر قتل کر دیا۔ پولیس اور انتظامیہ کے آنے سے پہلے ہی لوگوں نے مشعال کو قتل کر دیا۔ بعد میں جب تحقیقات شروع ہوئیں تو پتا چلا معاملہ کچھ اور ہی تھا۔ کئی لوگوں کو مشعال کے قتل میں بعد میں ایک کو سزائے موت بھی سنائی گئی۔ یہ تو ہے ہمارا رویہ کہ بغیر تحقیق کے ہی مار دھاڑ شروع کر دینا۔
سیالکوٹ میں اگست 2010ء کو ہماری جذباتی عوام نے دو بھائیوں کو گستاخی کے الزام میں قتل کر دیا۔ جب تحقیقات شروع ہوئیں تو معاملہ پھر کچھ اور ہی نکلا۔ بعد میں عدالت نے 7 لوگوں کو سزائے موت، 6کو عمر قید اور دیگر کئی کو سزا سنادی مگر وہ دونوں بھائی تو مر چکے۔ ان کا کیا قصور تھا وہ تو بے گناہ تھے۔ ان کا حساب آج تک کسی نے نہیں دیا۔ یہ ہے ہمارا اجتماعی معاشرتی رویہ، بغیر تحقیق کے خبر آگے پھیلا کر تباہی اور بربادی کر دینا۔
14 اکتوبر 2024 ء دوپہر 2 بجے پھر ماضی کی تاریخ دہرائی گئی اور کئی دنوں کے بعد بھی واقعہ کے ہونے تک کا کوئی ثبوت تک نہیں مل سکا۔ لیکن سوشل میڈیا پر کچھ جگہوں سے جب غلط خبر پھیلائی گئی تو دیکھتے ہی دیکھتے، ہماری جذباتی قوم نے بغیر تحقیق کے اس کو درست تسلیم کر کے احتجاج شروع کر دیا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بحیثیت مجموعی ہم دین سے دور ہیں، شریعت کا خاص پتا ہی نہیں۔ جس کا دل چاہتا ہے، جب چاہتا ہے، ہم کو ایک نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتا ہے، اور ہم اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ ہمارا دین تو بغیر تحقیق کے بات آگے بڑھنے سے منع کرتا ہے۔
اور آخری بات…
زندگی بہت قیمتی ہے… قدرت کا اپنا ایک نظام ہے۔ انسان کا بنایا قانون کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ برے کو اس کی برائی کی سزا تو ملنی ہے۔ غلط رویے آپ کی نسلوں اور معاشروں کو تباہی کی طرف لے جاتی ہیں… باقی نام رہے اللہ کا…
ایک عام پاکستانی کو بغیر مکمل تحقیق کے کسی پر الزام نہیں لگانا چاہئے اور قانون کو اپنا کام کرنے دیں۔ اپنے ملک اور اپنے اداروں پر اتنی بدگمانی مناسب نہیں ہوتی۔ اصل میں ہم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے سیاسی اور مذہبی قائدین کی اندھی تقلید اور محبت میں کچھ اس طرح مبتلا ہے، کہ اپنا دماغ تو استعمال کرتے ہی نہیں اور بے لگام ہو جاتے ہیں یہ نہیں ہونا چاہئے۔

تبصرے بند ہیں.