جنات کی مختلف ایسی حرکات کے بارے میں کہانیوں میں تو سنا اور پڑھا تھا کہ ان کی جانب کی جانے والی کوئی بھی ایسی بات یا حرکت جس کا حقیقت میں تو کوئی وجود نہ ہو لیکن اس کے باوجود وہ پورے شہر کو نظر بھی آ رہی ہو تی ہے اور لوگ اندھا دھند نہ صرف اس پر یقین کر رہے ہوتے ہیں بلکہ اس پر ردعمل بھی دے رہے ہو تے ہیں۔
کچھ ایسی ہی جناتی صورتحال کو چند روز پہلے ہم نے لاہور شہر میں مشاہدہ کیا کہ جب ایک طالبہ جو اس روز، جس دن کا وقوعہ بیان کیا جا رہا ہے، اپنے کالج گئی ہی نہیں تھی کے ساتھ ہونے والے مبینہ ریپ کی کہانی سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں طلبہ احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ معاملہ کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے پنجاب کے وزیر تعلیم نے بھی فوری ردعمل دے ڈالالیکن جب آہستہ آہستہ صورتحال واضح ہوئی تو معلوم ہوا کہ ایسا تو کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا اور شہر میں اتنے بڑے پیمانے پر دیکھا جانے والا ردعمل محض ایک جھوٹے پراپیگنڈا کی بنیاد پر تھا۔
واقعہ کی وزیراعلیٰ، پولیس کے اعلیٰ حکام اور بچی کے خاندان کی طرف سے وضاحت تو کی گئی لیکن ایک طالبہ ، اس کے خاندان، اس کے تعلیمی ادارے اور بحیثیت مجموعی پورے شہر کے امیج کو جو نقصان پہنچایا گیا وہ ناقابل تلافی ہے۔
ابتدائی رپورٹس کے مطابق تو یہ سب ایک سیاسی جماعت کا کیا دھرا ہے کہ جس نے اسلام آباد میں ایس سی او کانفرنس کے موقع پر احتجاج ریکارڈ کرا سکنے میں ناکامی کے بعد اپنے کارندوں اور سوشل میڈیا سیل کی مدد سے یہ سب کارروائی کی۔
حیرت انگیز بات ہے کہ کسی بھی قیادت کی کال کے بغیر طالب علموں کے احتجاج کی ایک لہر پورے شہر میں کیسے پھیل گئی ؟ اس صورت حال کو جو چیز واقعی عجیب بناتی ہے وہ یہ ہے کہ سرکاری سطح پر کوئی بھی متاثرہ فریق سامنے نہیں، کوئی شکایت کنندہ بھی نہیں، اور اس طرح کے واقعے کی کوئی باضابطہ رپورٹ بھی نہیں لیکن پورا شہر ہنگاموں کا شکار رہا۔
عام طور پر الزام لگایا گیا تھا کہ ایک مقامی تعلیمی ادارے میں ایک طا لبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر، متاثرہ لڑکی سامنے نہیں آئی۔ سرکاری شکایت کی عدم موجودگی میں، حکام اس واقعے کی تصدیق یا تردید کرنے سے قاصر رہے ، جس نے صرف مظاہرین کے غصے کو ہوا دی۔ سوشل میڈیاٹویٹر، انسٹاگرام اور ٹِک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز نے مظاہروں کو منظم کرنے اور سمجھی جانے والی ناانصافیوں کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے طاقتور ٹول کے طور پر کام کیا۔ تاہم، اس معاملے میں، ٹھوس معلومات کی عدم دستیابی نے احتجاج کو ایک معمہ میں تبدیل کر دیا ۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ ایک قابل شناخت شکار کی عدم موجودگی کے باوجود طلبہ سڑکوں پر کیوں آئے، اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ جنسی تشدد ایک گہرا حساس مسئلہ ہے، خاص طور پر کالج کیمپس میں، جہاں طالب علم خطرات سے بخوبی واقف بھی ہوتے ہیں ۔ شائد طالب علم کسی شکایت کنندہ کی عدم موجودگی کے باوجود اس لیے احتجاج کر رہے تھے کہ انہیں سڑکوں پر لانے کے لیے یہ سبق پڑھایا گیا تھا کہ یہ نظام متاثرین کو خاموش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے یا یہ کہ متاثرہ شخص آگے آنے سے بہت زیادہ ڈرتا ہے۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس قسم کا احتجاج ایک مبینہ واقعے کے بارے میں کم اور جنسی تشدد سے متعلق سسٹم میں موجود مسائل اور اس سے نمٹنے کے طریقہ کار کے بارے میں زیادہ ہو سکتا ہے۔
یقینا اس معاملے میں احتجاج کے تیزی سے پھیلاؤ میں سوشل میڈیا کا کردار مرکزی رہا ہے۔ کسی سرکاری رپورٹ کے بغیر، مبینہ واقعے کے بارے میں زیادہ تر بیانیہ اس لئے تشکیل پا گیا کہ بعض لوگ عینی شاہد بن بن کر ڈس انفارمیشن پھیلا رہے تھے لیکن حکومت کی جانب سے اس پراپیگنڈہ کے خلاف کریک ڈاون کا اعلان ہوتے ہی انہوں نے یا تو اپنی پوسٹیں ڈیلیٹ کرنا شروع کر دیں یا پھر اپنے بیان سے ہی مکر گئے۔
سوشل میڈیا میں جذبات کو وسعت دینے کی منفرد صلاحیت ہوتی ہے، جو بعض اوقات ایسے حالات کا باعث بنتی ہے جہاں ردعمل کی شدت کیس کے حقائق سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ Instagram اور Twitter جیسے پلیٹ فارم کہانیوں اور افواہوں کو وائرل کرنے کی اجازت دیتے ہیں، اکثر بغیر تصدیق کے۔ جیسے جیسے معلومات پھیلتی ہیں یہ اپنا رنگ اختیار کرتی جاتی ہیں اور بار بار بیان کرنے سے بعض اوقات اصل کہانی یکسر ہی تبدیل ہو کر رہ جاتی ہے۔
مبینہ عصمت دری کے معاملے میں، یہ ممکن ہے کہ جو چیز ایک مبہم افواہ کے طور پر شروع ہوئی تھی وہ ایک یقین کی شکل اختیار کر گئی ہو، جس نے طالب علموں کو حقیقی تشویش سے کام لینے پر مجبور کیا ہو۔
کسی متاثرہ فریق یا شکایت کنندہ کی موجودگی کے بغیر مبینہ عصمت دری کے خلاف احتجاج ایک انوکھی اور پریشان کن صورتحال ہے۔ اگر اسے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری اور نااہلی قرار دیا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا کیونکہ بعد میں جو مرضی ایکشن لیتے رہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں اگر بروقت یہ معلومات ہی میسر نہ ہوں کہ کچھ گروپ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے پورے شہر میں ہنگامے برپا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس لیے حکومت کو اس شیطانی کھیل کے ذمہ داروں کی سرکوبی کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ’منجی کے نیچے بھی ڈانگ پھیرنا پڑے گی‘ کیونکہ غلطی، کوتاہی یا جرم کے ساتھ ساتھ نااہلی اور غفلت بھی ناقابل معافی عمل ہیں۔
یہ کسی کی مجرمانہ پلاننگ تھی یا کسی کی غفلت، کوتاہی اور نااہلی، ایس سی او کانفرنس کے موقع پر جب پوری دنیا کے سیاسی اور صحافتی حلقوں کا فوکس پاکستان پر تھا لاہور جیسے شہر میں یہ سب کچھ ہو جانا صرف افسوسناک ہی نہیں بلکہ تشویشناک بھی ہے۔ خیر جو ہونا تھا سو ہوا لیکن اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ہمارے ادارے اور حکام اس صورتحال کو کس طرح سنبھالتے ہیں مجرم کس طرح سزا پاتے ہیں اور بلاوجہ بدنامی کا شکار ہونے والے خاندان کے وقار کی بحالی کے لیے کیا خاص اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ یقینا ایک ایسے دور میں جہاں معلومات (درست یا غلط) تیزی سے پھیل سکتی ہوں اور جذبات آسانی سے بھڑک سکتے ہیں یا بھڑکائے جا سکتے ہوں، آگے کا راستہ تلاش کرنا جو احتساب، حساسیت اور قانونی عمل میں توازن رکھتا ہو پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.