مسجد الحرام کی وسعتیں اور نمازِ جمعہ…!

84

(گزشتہ سے پیوستہ)
19 جولائی کو مسجد الحرام میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے ہم کوئی سوا گیارہ ، ساڑھے گیارہ بجے اپنے ہوٹل سے چلے تو ہمارا خیال تھا کہ ہم بر وقت ہوٹل سے نکل آئے ہیں اور مسجد الحرام میں بابِ فہد کے راستے داخل ہونے اور اگلے برآمدوں تک پہنچنے میں ہمیں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ شارع ابراہیم خلیل پر آئے تو دیکھا کہ لوگوں کی بڑی تعداد مسجد الحرام کا رُخ کیے رواں دواں ہے۔ اچانک ہمیں خیال آیا کہ کل ہم نے مدینہ منورہ روانہ ہو جانا ہے اورراضیہ نے اپنی کسی ساتھی کی طرف سے مسجد الحرام میں وقف کے طور پر رکھی جانے والی سٹیل کی جس فولڈنگ چیئر (کرسی) کی خریداری کرنا ہے کیوں نہ ابھی ہی کر لی جائے۔ طے پایا کہ میں عمران اور راضیہ کرسی کا سودا کرنے کے لیے رُک جاتے ہیں جبکہ واجد، اُس کی امی، عمران کی امی اور میری اہلیہ محترمہ معمول کے راستے پر چلتے ہوئے بابِ فہد سے گزر کرمسجد الحرام کے مخصوص حصے میں جہاں ہم نمازوں کی ادائیگی کے بعد اکٹھے ہوا کرتے ہیں وہاں پہنچ جائیں گے اور ہم کرسی لے کر اُن سے وہیں آن ملیں گے۔ شارع ابراہیم خلیل کی دکان جس سے ہم نے پچھلے دن فولڈنگ چیئر کی قیمت وغیرہ کے بارے میں بات کی تھی اُس دکان پر پہنچے ۔ دکاندار بمشکل 20 ریال میں کرسی دینے پر آمادہ ہوا لیکن ساتھ ہی ہنس کر کہنے لگا کہ کرسی کی پُشت پر مارکر سے ’’وقف الی الحرمـ‘‘ کے الفاظ لکھنے کا الگ معاوضہ ہو گا۔ میں نے اُسے کہا کہ مجھے مارکر دیں میں خود یہ الفاظ لکھ لیتا ہوں ۔ اُس نے کچھ رد و کد کے بعد مارکر مجھے دیا تو میں نے جلی حروف میں ’’وقف الی الحرم ‘‘ کے الفاظ کرسی کی پشت پر لکھ کر اُس کے سامنے کیے تو میری لکھائی دیکھ کر کچھ حیران سا ہوا ۔ میں نے اُسے بتایا کہ ’’انا معلم‘‘ تو اُس نے اُونچی آواز میں ٹیچر کہہ کر میرا ہاتھ تھام لیا۔
کرسی کی خریداری کے بعد دکان سے باہر آئے تو 10 , 12منٹ گزر چکے تھے اس دوران شارع ابراہیم خلیل پر لوگوں کے ہجوم میں اضافہ ہو چکا تھا اور کبوتر چوک سے پہلے برقی سیڑھیوں پر چڑھ کر آگے مسجد الحرام کے بابِ فہد کی طرف جانے والا ہمارا روزانہ کا راستہ بند ہو چکا تھا۔ وہاں باوردی پہریدار کھڑے تھے جو لوگوں کو بائیں طرف ہوٹل ’’فندق دارالتوحید‘‘ کے سامنے سے گزر کر آگے مسجد الحرام کی طرف جانے والے راستے کی
طرف اشارہ کر رہے تھے۔ ہمیں بھی مجبوراً اسی راستے کو اختیار کرنا پڑا۔ ہمیں واجد اور اُس کے ساتھ خواتین کے بارے میں فکر تھی کہ اللہ جانے وہ کہاں پہنچے ہونگے۔ عمران نے فون پر واجد سے رابطہ کیا تو اُس نے بتایا کہ وہ بابِ فہد سے گزر کر آگے برآمدوں میں آ چکے ہیں۔ مجھے اہلیہ محترمہ کے بارے میں کچھ فکر مندی تھی کہ آیا وہ بھی ان کے ساتھ ہیں یا نہیں۔ واجد نے گول مول جواب دیا کہ فکر نہ کریں خواتین میرے ساتھ ہی ہیں۔ خیر ہم آگے بڑھے اورمسجد الحرام کے جنوبی سمت کے کھلے احاطوں سے گزرتے ہوئے مسجد الحرام کے نو تعمیر شدہ بڑے گیٹ نمبر 100 ’’بابِ شاہ عبداللہ‘‘ سے مسجد الحرام میں داخل ہو گئے۔ ہم برآمدوں میں آگے بڑھتے گئے ۔ ہمارا خیال تھا کہ اس طرح شمالی سمت میں آگے چلتے ہوئے ہم مروہ اور صفا کے سعی کے راستے تک پہنچ جائیں گے اور وہاں کے برآمدوں سے گزر کرمسجد الحرام کی مشرقی سمت سے ہوتے ہوئے جنوب مشرق میں بابِ فہد کے اندر کے برآمدوں میں پہلے سے طے شدہ جگہ پر اپنے باقی لوگوں سے آن ملیں گے۔ ہماری یہ خام خیالی تھی۔ ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ مسجد الحرام کا شاہ عبداللہ Expansion منصوبہ جو زیرِ تکمیل ہے اس کے تحت مسجد الحرام کی مغربی، شمال مغربی اور کچھ شمالی سمتوں میں مسجد الحرام کی کتنی کشادگی ، وسعت، فراخی اور پھیلائو ہو چکا ہے۔ کتنے دور دور تک آگے پیچھے برآمدے بن چکے ہیں اور اُن کی تزئین و آرائش اور بناوٹ و سجاوٹ کا کام بھی زور و شور سے لیکن خاموشی سے ہو رہا ہے۔ اب ہم نے بہتر یہی جانا کہ ہم آگے بڑھنے اور چکر کاٹنے جس کے مکمل ہونے کا یقین نہیں تھا کی بجائے بائیں ہاتھ باہر کی طرف وسیع و عریض برآمدوں میں مردو خواتین کے نماز کے لیے الگ الگ مخصوص احاطوں میں ہی بیٹھ جائیں اور جمعتہ المبارک کی نماز جس کی ابھی اذان نہیں ہوئی تھی وہاں ہی ادا کریں۔ میں نے اور عمران نے اگلے برآمدوں میں مردوں کے لیے مخصوص دو احاطوں کو چھوڑ کر تیسرے احاطے میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا اور راضیہ کو اُس سے ملحق عورتوں کے لیے مخصوص احاطے میں بیٹھنے کا کہا۔ طے یہ پایا کہ جمعتہ المبارک کی نماز ادا کرنے کے بعد ہم یہیں سے پیچھے جا کر مسجد الحرام سے باہر آ جائیں گے۔
مسجد الحرام کی کسی بھی نمازکو بلا شبہ ایک روح پرور منظر قرار دیا جاسکتا ہے لیکن جمعہ کی نماز کے کیا کہنے اس میں نمازیوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے۔ ہم (میں اور عمران) جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے جس برآمدے یا احاطے میں جا کر بیٹھے وہ خالی لگ رہا تھا لیکن ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے نمازیوں سے بھر گیا۔ جمعہ کی پہلی اذان 12 بجکر 40 منٹ کے لگ بھگ ہوئی، پھر 15,20 منٹ کا وقفہ رہا ۔ ہم نے سُنتیں اور نوافل ادا کیے ۔ دوسری اذان ہوئی تو ساتھ ہی امام صاحب نے جمعے کے خطبے کا آغاز دیا ۔ امام صاحب کوئی 15,20 منٹ تک بولتے رہے ۔ اللہ کریم کی عظمت و کبریائی کے بیان کے ساتھ حضور خاتم النبیینﷺ پر درود و سلام۔ قرآنِ کریم کی آیاتِ مقدسہ اور احادیث مبارکہ کے سند کے ساتھ حوالے ۔ عربی الفاظ پوری طرح سمجھ نہیں آ رہے تھے لیکن پھر بھی روح میں اُتر رہے تھے۔ امام صاحب کا لہجہ ، آواز کا زیرِ و بم اور جوش و جذبہ بلا شبہ بے مثال تھا۔ فرض نماز کی ادائیگی میں قرأت کے دوران بھی امام صاحب کا یہ انداز قائم تھا۔ لگ رہا تھا کہ تلاوت کی جانے والی آیات جیسے آسمان سے اُتر رہی ہوں۔
جمعے کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہم (میں اور عمران) عورتوں کی نماز کی ادائیگی کے ملحقہ حصے کی طرف آئے تاکہ راضیہ کو ساتھ لے سکیں۔ اُسے ہم نے ساتھ لیا اور طویل راہداری میں چلتے ہوئے مسجد الحرام کے باہر آ گئے۔ اب ہم نے اپنے بائیں جانب کافی فاصلے پر بابِ فہد کی طرف جانا تھا تاکہ وہاں سے مسجد الحرام کے اندر داخل ہو کر واجد اور خواتین سے رابطہ کر سکیں۔ یہ لمبا راستہ تھا دن تقریباً ڈیڑھ بجے کا وقت تھا دھوپ کافی تیز تھی اور سخت گرمی بھی تھی پھر مسجد الحرام کے اندر اور باہر آنے جانے کے مخصوص راستوں کی پابندی بھی تھی۔ اس طرح ہمیں بابِ فہد تک پہنچنے کے لیے کچھ زیادہ ہی مسافت طے کرنا پڑی۔ خیر بابِ فہد سے گزر کر ہم اندر داخل ہوئے ، سیر ہو کر آبِ زم زم پیا اور برقی سیڑھیوں سے مسجد الحرام کی نچلی منزل میں آگئے ۔ وہاں سے کچھ ہی آگے خواتین کے بیٹھنے اور نماز ادا کرنے کا احاطہ ہے ۔ ہم وہاں پہنچے تو واجد قریب ہی ہمارا انتظار کر رہا تھا جبکہ خواتین کے احاطے میں عمران کی امی اور واجد کی امی موجود تھیں لیکن میری اہلیہ محترمہ کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ یقینا یہ ایسی بات تھی جس سے میرا پریشان ہونا لازمی تھا لیکن اللہ کریم نے جلد ہی اس پریشانی سے نجات دلا دی۔ وہ کیسے اور اس کے ساتھ میں نے اُس وقت خانہ کعبہ کا اکیلے جو طواف کیا اُس کا تذکرہ ان شاء اللہ اگلے کالم میں۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.