مجھے یقین ہے کہ الفاظ کی خالی رگوں میں مفہوم کا لہو بھرنے والا روٹھ جائے تو جملے بے اثر ہو جاتے ہیں۔ مجھے اعتراف کرنا ہے کہ تخلیق کرنے والا اپنی مخلوق کو جو رزق عطا کرتا ہے وہ سوچ، لفظ، اظہار اور عمل کی صورت اتارتا ہے۔ ہم جو تحریر کو اظہار کی صورت تقسیم کرتے ہیں، ہمیں خیال رکھنا ہوتا ہے کہ شعوری بد دیانتی نہ ہو، حقائق مسخ نہ کیے جائیں اور ایک گل کو گلزار بنا کر پیش نہ کر دیا جائے، ورنہ خیال و لفظ کا رزق برکت سے خالی ہو جاتا ہے اور پھر الفاظ صفحات کا پیٹ تو بھرتے ہیں، دلوں میں نہیں اترتے۔
مجھے یقین ہے کہ مجھ سے ضرور کچھ ایسا سرزد ہوا ہو گا کہ مجھ سے میرے حصے کا حرف مدعا چھین لیا گیا تھا۔ میں نے کوشش کی مگر نہ لکھ سکا اور بے اثر جملے جوڑنے کی مجھے عادت نہیں رہی۔ پھر ایک مختصر وقفے کے بعد قاسم حرف و قلم نے ایک اور موقع عطا فرمایا اور لفظ قلم زد ہونے پر آمادہ ہوئے۔
سوشل میڈیا کی اپنے صارفین تک بھرپور اور منفی مثبت رسائی نے اصل اور نقل کو ہم پلہ بنا ڈالا۔ کچھ سیاست دان اپنی نا اہلی کے باوجود کچے ذہنوں کے لیے پکے مرشد بن گئے، جن پر بات کرنا، تبصرہ کرنا، غلطیاں گنوانا اور انہیں اصلاح کی رتی بھر گنجائش کی طرف کھینچنا حرام سمجھا جانے لگا۔ وہ لیڈر سے پیشوا ہوئے اور پھر پیشوا سے قطب نظر آنے لگے۔ ووٹر آہستہ آہستہ مقلد سے پیروکار ہوئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بے کار ہو گئے۔
اسی طرح کوڑھ شکلوں اور بھدی عقلوں والوں کو مجسمہ حسن بنا کر پیش کرنے کے لیے ایپس آ گئیں۔ کردار کو بنانے اور بگاڑنے والے ہنر موبائل فون میں بھر دئیے گئے۔
’’ ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گزر گیا‘‘
وقت نے کیسے کیسے رنگ بدلے اور بغیر ثبوت چور چور کے نعرے لگائے جانے لگے۔ ازل سے عقلی و فکری گوشواروں کے غریبوں نے پگڑی اچھالنے اور گالی دینے کو اپنی سیاسی تبلیغ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ سوشل میڈیا پر دوستیاں اور دشمنیاں فروغ پانے لگیں۔ ایسی صورتحال میں تخلیق کہاں رہ جاتی ہے اور خیال کب قلم کے ذریعے مجسم ہوتے ہیں۔
ہمیں اعتراف ہے کہ جب تک لفظ آپ کو لکھنے پر آمادہ نہ کریں، آپ کچھ لکھ ہی نہیں سکتے۔ ہم نے بہت سے لکھنے والوں کا جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ بے برکتی تحریریں شائع ہو جانے کے باوجود قارئین سے دور کیوں رہ جاتی ہیں؟ جب آپ الفاظ سے ہم آہنگی نہیں رکھتے۔ آپ کا خیال جعلی اور آمد دو نمبر ہو گی تو تحریر کیسے موثر ہو سکتی ہے۔ اشعار کو قسط وار جوڑ کر غزلیں کہنے والے اپنی شاعری کی عدم مقبولیت کا شکوہ کریں تو افسوس ہوتا ہے۔
جب تک الفاظ کی دیوی مہربان نہ ہو اور خیال سچائی کی ذاتی کیفیات سے لبریز نہ ہو، نثر لکھی جاتی ہے اور نہ نظم۔ مجھے اعتراف ہے کہ لفظوں کے ساتھ بددیانتی بھی مصنف اور شاعر سے اس کے ہنر کی برکت چھین لیتی ہے۔ باوضو ہو کر طبلہ بجانے والے کی تال بدنیت کی دعا سے پہلے مستجاب ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ الفاظ کی خالی رگوں میں مفہوم کا لہو بھرنے والا روٹھ جائے تو جملے بے اثر ہو جاتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.