ریاست اپنے عوام کا تحفظ کرنے کے لئے ہمیشہ سے ہی ایک قدم آگے رہی ہے۔ اس کی ہمیشہ سے ہی بھاری قیمت چکانا پڑی ہے۔ یہ قیمت زیادہ تر شہدا کی صورت میں ہے۔ پاک فوج، سکیورٹی فورسز نے قیام امن کے لئے جہاں لا تعداد قربانیاں دیں وہیں دہشت گردوں کو قابو میں لانے کے لئے بھی اپنے وسائل استعمال کرتے ہوئے عوام کو ریلیف دیا۔ عام آدمی بھی جانتا ہے پاک فوج ہے تو ہم ہے، ہماری سرحدوں کی نگہبان ہی یہی فوج ہے۔ ایسے میں جہاں وطن عزیز کے محافظوں کی تعریف ہوتی ہے ، ان کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے وہیں پراپیگنڈا کرنے والے بھی کسی سے کم نہیں اور تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ غور فرمائیں ایک ایسی فوج جس کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے، جس نے کسی بھی مشکل حالت میں قوم کو تنہا نہیں چھوڑا وہ کیسے ملک دشمنوں کو اچھی لگ سکتی ہے ؟ یہی کچھ ہو رہاہے عصر حاضر میں جہاں قبائلی قیام امن کے لئے پاک فوج کے معترف ہیں وہیں پراپیگنڈا کرنے کے ماہر پوری طاقت سے اپنے مشن پر فوکس کئے ہوئے ہیں اور بے بنیا د الزامات لگاکر پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی ایم نے ایک گمراہ کن پراپیگنڈے کا پھر سہارا لے کر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔ کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی جانب سے جاری کیے گئے جھوٹ اور فریب پر مبنی وائٹ پیپر جس سے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، اس کے تناظر میں یہ ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردی اور فوجی آپریشنز سے متعلقہ حقائق کا موازنہ کیا جائے۔ اگرچہ کالعدم پی ٹی ایم نے خطے میں جنگ اور عسکریت پسندی سے ہونے والے نقصانات کو نمایاں کیا ہے، لیکن یہ دعوے اکثر مبالغہ آمیز ہیں اور اس میں ریاست کی جانب سے کیے گئے ترقیاتی اقدامات اور بحالی کے کاموں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ پی ٹی ایم کے دعوے کے مطابق 3.7 ملین افراد فوجی آپریشنز کے باعث بے گھر ہوئے۔ یہ تعداد حقیقت سے ہٹ کر پیش کی گئی ہے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 2.5 ملین افراد نے عارضی طور پر نقل مکانی کی، جن میں سے 90 فیصد سے زائد افراد کی بحالی مکمل ہو چکی ہے۔ ان افراد کو دوبارہ اپنے علاقوں میں آباد کرنے کے لیے ریاست نے اربوں روپے خرچ کیے اور ان کی بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنائی۔ پی ٹی ایم نے دہشت گردی کے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، تاہم اس بات کو نظر انداز کیا گیا کہ 2007 کے مقابلے میں 2023 تک دہشت گردی کے واقعات میں 80 فیصد سے زیادہ کمی آئی ہے۔ افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے لیے 11 بڑے آپریشن کیے، جن کے نتیجے میں ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال میں نمایاں بہتری آئی ہے، اور فوج نے ان آپریشنز کے لئے بڑی جانی قربانیاں دی ہیں۔ دو ہزار سات میں 62 فیصد قبائلی علاقے دہشت گردوں کے قبضے میں تھے جبکہ ہماری بہادر افواج اور پوری قوم کی قربانیوں کے باعث 2024 میں 100 فیصد علاقوں پے حکومتی رٹ قائم ہے پی ٹی ایم نے صنعتوں کے زوال اور غربت کی شرح میں اضافے کی بات کی، جبکہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق متاثرہ علاقوں میں غربت کی شرح میں 15 فیصد کمی ہوئی ہے۔ خیبر پختونخوا اور سابق فاٹا میں کئی بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے ہیں، جن میں سڑکوں، سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر شامل ہے۔ دو ہزار بیس سے 2024 تک صوبے میں صنعتی بحالی کے لیے 1,000 سے زائد منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں، جس سے علاقے میں روزگار کے مواقع بھی بڑھے ہیں۔ 2007 کے مقابلے میں آج کے قبائلی اضلاع زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔ کالعدم پی ٹی ایم نے جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگوں کے 178 دھماکوں کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ان دھماکوں کی تعداد 100 سے کم ہے۔ ان دھماکوں کے متاثرین کی بحالی کے لیے حکومت نے خصوصی منصوبے شروع کیے ہیں اور سرنگوں کی صفائی کے لیے فوجی اور سول انجینئرز کی مشترکہ ٹیموں نے متاثرہ علاقوں کا 70 فیصد حصہ کلیئر کر دیا ہے۔ کالعدم پی ٹی ایم کے وائٹ پیپر میں 4,952 گمشدہ افراد کا ذکر کیا گیا ہے، لیکن ریاستی سطح پر گمشدہ افراد کی تعداد 2,000 سے کم ہے اور ان میں سے بیشتر افراد واپس آ چکے ہیں یا ان کی تحقیقات جاری ہیں۔ حکومت نے اس معاملے کے حل کے لیے ایک خصوصی کمیشن قائم کیا ہے جو شفاف تحقیقات کو یقینی بنا رہا ہے۔ کالعدم پی ٹی ایم کے دعوے حقائق کے برعکس ہیں اور ان کا مقصد خطے میں ریاست کے کردار کو منفی انداز میں پیش کرنا ہے۔ اور عوام کو گمراہ کرکے ریاست سے متنفر کرنا ہے جو پاکستان کے دشمنوں کی سازش ہے۔ خیبر پختونخوا اور سابق فاٹا میں ریاست کی طرف سے امن، ترقی اور بحالی کے لیے بے پناہ اقدامات کیے گئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عوام کو ایک مثبت اور حقیقت پر مبنی بیانیہ کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں استحکام اور ترقی کی راہ ہموار ہو۔
تبصرے بند ہیں.