شنگھائی تعاون تنظیم کے 23 ویں اجلاس کی میزبانی کا شرف پاکستان کو مل رہا ہے، یہ اْن سب محب وطن پاکستانیوں کے لئے خوشی کی بات ہے جن کے دل پاکستان کو مسلسل تنزلیوں کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ کر خون کے آنسو روتے ہیں، اس اجلاس سے دْنیا میں پاکستان کے تیزی سے کم ہوتے ہوئے وقار میں کچھ ٹھہراؤ آئے گا، پاکستان پر دْنیا کا ایسا اعتماد قائم ہو جس کے مستقبل میں مثبت نتائج ہونے کے قوی امکانات ہیں، ممکن ہے پاکستان کے کچھ ازلی و اصلی دْشمن ممالک کو اس کی تکلیف بھی ہو، اپنی اس تکلیف کو رفع کرنے کی کچھ منصوبہ بندی بھی اْنہوں نے کر رکھی ہو، مگر یہ طے ہے اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک ہمیشہ قائم و دائم رہے گا، اپنی مکمل بد نیتیوں، نااہلیوں، بددیانتیوں اور بدمعاشیوں سے سیاسی اور زیادہ سیاسی حکمران اس مْلک کا اگر کچھ نہیں بگاڑ سکے پھر دْنیا کی بڑی سے بڑی بیرونی قوت بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی، مجھے یقین ہے پاکستان میں منعقد ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم کا 23 واں اجلاس پاکستان کی صرف ترقی میں ہی نہیں نیک نامی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا، بس یہ ہے ہمارے کچھ مداری حکمرانوں کو اس موقع پر بہت گریس فْل رہنا چاہئے، کوئی ایسی چول نہیں مارنی چاہئے جو اْن کی روایت ہے اور اْس کے نتیجے میں پاکستان کا ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے، سکیورٹی انتظامات میں ہلکی سی سْستی یا کوتاہی کسی بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے، یہ پاکستان کی صرف عزت آبروہی نہیں بقاء کا معاملہ ہے، اس معاملے میں کوئی اگر رکاوٹ بننے کی ہلکی سی کوشش کرتا ہے اْس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہوگا اْسے پاکستان کا مفاد عزیز نہیں ہے، اس تناظر میں پی ٹی آئی کی ’’حالیہ دوست جماعتوں‘‘ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی سے اسلام آباد میں اپنا احتجاج ملتوی کرنے کی جو اپیل کی ہے اْمید ہے پی ٹی آئی مان لے گی، لیکن اگر اس احتجاج کو کسی خاص ذاتی مقصد سے جوڑ کر ملتوی نہیں کیا جاتا اس سے پی ٹی آئی کی وہ ساکھ یقینا متاثر ہوگی جو عوامی لحاظ سے اس وقت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، ممکن ہے پی ٹی آئی میں جو چند ’’انتہا پسند‘‘ ہیں، یا کوئی اور قوت جو پی ٹی آئی کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہے وہ یہ چاہے پی ٹی آئی اپنا احتجاج ملتوی نہ کر کے خود پر لگے کچھ داغوں میں مزید ایک داغ کا اضافہ کر لے، پی ٹی آئی کے حقیقی لوگوں کو چاہئے پوری قوت سے اس سازش کو ناکام بنا دیں، اس حوالے سے عمران خان سے مشورے کی ضرورت بھی نہیں کہ یہ کارنامہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے حق میں ہی جائے گا، ویسے میری اطلاعات کے مطابق ریاست آج پیر کو پی ٹی آئی کے ایک دو یا دو چار لوگوں کو جیل میں عمران خان کے ساتھ ملاقات کی سہولت فراہم کر سکتی ہے جس کے بعد پی ٹی آئی اپنا احتجاج ملتوی کرنے کا اعلان بھی کر سکتی ہے، مجھے یقین ہے عمران خان بھی ایک بڑے قومی فائدے کو اپنے کسی نقصان یا تکلیف سے جوڑ کر رد نہیں کریں گے، بظاہر پی ٹی آئی کے احتجاج کا ایک بڑا مقصد اس وقت عمران خان کے ساتھ ملاقات ہے جن کے بارے میں گزشتہ کئی روز سے یہ افواہ گردش کر رہی ہے اْن پر تشدد ہوا ہے یا اْنہیں نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش ہوئی ہے، یہ اگر افواہ ہے تو پی ٹی آئی کے حقیقی نمائندہ وفد کی عمران خان سے ملاقات کے بعد دم توڑ جائے گی، اور اگر اس میں کوئی حقیقت ہے پھر ایک پر زور احتجاج پی ٹی آئی کا حق بنتا ہے جو اْسے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے فورا ًبعد ضرور استعمال کرنا چاہئے، فرض کر لیں عمران خان کے ساتھ پی ٹی آئی کے وفد کی فوری ملاقات کا اہتمام اگر نہیں کیا جاتا پھر بھی یہ احتجاج دو تین روز کے لئے قومی مفاد میں ملتوی کرنا ہی بہتر ہے، میرے خیال میں یہ احتجاج ملتوی کروانے کے لئے دوست سیاسی جماعتوں کی اپیل کی نوبت ہی نہیں آنی چاہئے تھی کہ اب اگر پی ٹی آئی نے اپنا احتجاج ملتوی کیا تو اس کا سارا کریڈٹ اْن سیاسی جماعتوں یا سیاستدانوں کو مل جائے گا جنہوں نے پی ٹی آئی سے احتجاج ملتوی کرنے کی استدعا کی ہے، قومی مفاد میں یہ کام پی ٹی آئی کو بغیر کسی کی اپیل یا استدعا کے اور بغیر کسی شرط کے خودہی کر لینا چاہئے تھا، عمران خان سے ہم بھی محبت کرتے ہیں، سب جانتے ہیں اْس کے ساتھ کئی برس پْرانا ایک ذاتی تعلق ہے جس کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے کے ہر دْکھ سْکھ میں شریک ہوتے رہے ہیں، اْن کے اقتدار میں جتنا میں نے اْن کی کچھ ناقص پالیسیوں کے خلاف لکھا شاید ہی اور کسی نے لکھا ہوگا، اْس کا جو خمیازہ بْھگتا چودھری محمد سرور اور عبدالعلیم خان کے ساتھ ساتھ دْنیا نیوز لاہور کے ڈپٹی بیورو چیف حسن رضا گواہ ہیں جنہوں نے سب سے پہلے فون پر مجھے تفصیل بتائی کہ آپ کے خلاف کس قسم کی انتقامی کارروائیوں کا حکم وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ ’’ بودار‘‘ کی جانب سے دیا گیا ہے، مگر اب جبکہ وہ مشکل میں ہیں، جیل میں ہیں اور اقتدار میں نہیں ہیں کچھ قوتوں کی پوری کوشش کے باوجود میں اْن کے خلاف ایک ہتھیار یا آلہ کار بننے کے لئے تیار نہیں ہوا کیونکہ میری تربیت اور میرا خون مجھے اس کی اجازت نہیں دیتے تھے، لیکن جہاں میرے مْلک کا مفاد ہے وہاں عمران خان پی ٹی آئی یا کسی بھی اور سیاسی قوت یا اصلی قوت کے کسی مفاد کے تحفظ کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا، ممکن ہے پی ٹی آئی کی کچھ مخالف حکومتی قوتیں بھی یہ چاہیں پی ٹی آئی اپنا احتجاج ملتوی نہ کرے جس کے بعد اْس کے منہ پر ایسی کالک ملی جائے جسے ساری زندگی وہ صاف نہ کر سکے اور اس سے اْس کی مقبولیت میں کچھ کمی واقع ہو جائے، احتجاج ملتوی نہ ہونے کی صورت میں سکیورٹی کے اعتبار سے کوئی ایسا ڈرامہ حادثہ یا سانحہ بھی ہوسکتا ہے جو پاکستان کے مستقبل کو مستقل طور پر تاریک کر دے، کہنے کا مطلب یہ ہے پاکستان اور پی ٹی آئی کی دْشمن کچھ اندرونی و بیرونی قوتیں اس صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھا سکتی ہیں جس کی ساری ذمہ داری پی ٹی آئی پر ڈال دی جائے گی، ان ’’متوقع سازشوں‘‘ کو سمجھنے کی ضرورت ہے، سو احتیاط کے تمام تر تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی کو نہ صرف اپنا احتجاج دو چار دنوں کے لئے ملتوی کر دینا چاہئے بلکہ غیر ملکی مہمانوں کے لئے کسی تقریب یا اجلاس میں اْنہیں مدعو کیا جاتا ہے یہ دعوت دل بڑا کر کے اْنہیں قبول کر لینی چاہئے، دوسری طرف سیاسی اور زیادہ بڑے سیاسی حکمرانوں نے محض اپنی اپنی جھوٹی اناؤں کو تسکین بخشنے کے لئے اس مْلک میں ظلم، جبر، انتقام ناانصافی اور فسطائیت کا جو ماحول قائم کر رکھا ہے قومی مفاد میں اْسے بھی کم بلکہ مکمل طور پر ختم کرنے کی اشد ضرورت ہے، اپنی حکمت عملی یا پالیسیوں کو تبدیل نہ کرنے کی ضد وہ چھوڑ دیا کریں، پاکستان رہے گا تو ہمارے کھانے پینے کے معاملات بھی چلتے رہیں گے، اْس وقت سے ڈرنا چاہئے جب بھوک ننگ چھوٹے چھوٹے کمزور دروازوں کے ساتھ ساتھ کسی ’’آہنی گیٹ‘‘ پر بھی دستک دینے لگے، بلکہ گیٹ پھلانگ کر اندر داخل ہو جائے۔
تبصرے بند ہیں.