مسلم لیگ ن کے دوسرے دور میں ایک پراجیکٹ شروع کیا گیا تھا ، نام تھا ’’قرض اتارو ملک سنوارو‘‘، آغاز جناب نواز شریف کے ماڈل ٹائون والے گھر سے ہوا جہاں اس زمانے میں ہر اتوار کو ایک بڑے ڈرائنگ روم میں کھلی کچہری منعقد ہوتی تھی۔ شرکاء کی تعداد سو کے قریب ہوتی تھی۔ یہ میڈیا کیلئے ایک ایونٹ ہوا کرتا تھا، ہر شعبہ زندگی سے افراد اس رونق میں شریک ہونے کے لئے بے چین ہوئے تھے۔ اس پراجیکٹ کا انجام یہ ہوا ملک کا قرض اترا نہ ملک سنورا، ملک سنوارنے کے لئے ایک پراجیکٹ پر کام ازسر نو شروع ہوا ہے، اس سے قرض تو نہیں اتریں گے لیکن ملک کے سنورنے میں مدد مل سکتی ہے۔ پراجیکٹ ہے سرکاری اخراجات میں کمی، متعدد محکمے ختم کئے جا رہے ہیں، مختلف وزارتوں کو ضم کیا جا رہا ہے، غیر ضروری آسامیاں ختم کی جا رہی ہیں جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، یہ بہت مثبت اقدام ہیں، انہی نیک کاموں میں اگر ایک اور کام کا اضافہ کر لیا جائے تو سرکاری اخراجات میں واضح کمی واقع ہو سکتی ہے۔ آئینی ترامیم کا موسم ہے، ایک آئینی ترمیم اور ہو جائے یا اس کے لئے ریفرنڈم کرا لیا جائے اور اس کے نتیجے میں ملک کے پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام رائج کر دیا جائے تو درجنوں نمائشی دفتر بند ہو سکتے ہیں، اربوں روپے کے اخراجات سے جان چھوٹ سکتی ہے، جاری نظام میں صدر بھی ہے اور وزیراعظم بھی ، یہ کام ایک شخص کر سکتا ہے، گورنر بھی ہے اور وزیراعلیٰ بھی، یہ کام بھی ایک آدمی ہی کر سکتا ہے، اسی طرح اگر وفاقی اور صوبائی وزراء کی تعداد کم کر لی جائے تو یہ ایک مستحسن قدم ہو گا۔ سادگی کا کلچر اختیار کیا جائے بے جا تشہیر کیلئے وفاقی اور صوبائی بجٹ کا استعمال بند کیا جائے، ووٹ کو عزت دو کا نعرہ بہت اچھا تھا، آج جو درجنوں کارڈ عزت افزائی کے لئے جاری کئے جا رہے ہیں، ان کے بجائے شناختی کارڈ کو عزت دی جائے تو اس میں بلاتخصیص سب کی عزت ہو گی، عزت کے لئے گاڑی پر جھنڈا ضروری نہیں ہے۔ سانسیں رکنے سے پہلے آکسیجن مل جائے تو سانس بحال ہو جاتے ہیں، انسان کو سانس رکنے کے بعد آکسیجن ٹینٹ میں ڈال دیا جائے تو دل دھڑکنے سے انکار کر دیتا ہے۔ ملک کا اقتصادی تنفس رکنے کے قریب ہی تھا کہ ادھر دھیان دیا گیا یا دلایا گیا جو بھی ہوا ٹھیک ہوا، اتحادی حکومت دو برس سے اقتدار میں ہے، یہ کام دو برس قبل کرتے تو کریڈٹ حکومت کا ہوتا اب یہ کریڈٹ کسی اور کا ہے، بجلی پیدا نہ کرنے والے پانچ اداروں سے معاہدے ختم ہونے پر صارفین کو ستر پیسے فی یونٹ بچت کی خبر سنائی گئی ہے۔ ایک زمانے میں ہمارا روپیہ بہت طاقتور تھا، اس مناسبت سے روپے میں سو پیسے تو بڑی بات ہے، ایک پیسے میں بڑی طاقت تھی کہنے کو تو یہ ٹیڈی پیسہ تھا لیکن ہر پاکستانی ایک ٹیڈی پیسہ دفاعی فنڈ میں جمع کراتا تو اس سے روزانہ دو ٹینک خریدے جا سکتے تھے، آج روپیہ اتنا رُل چکا ہے کہ بچہ روپیہ ساتھ میں لے کر دکان پر جائے اور کہے ایک ٹافی دے دو تو دکاندار اسے ڈانٹ کر بھگا دیتا ہے۔ یہ ستر پیسے کس کام آسکتے ہیں، وزیر توانائی بہتر بتا سکتے ہیں جو دو ماہ قبل اس معاملے میں ٹی وی پر کہتے نظر آتے تھے اس حوالے سے کوئی ریلیف نہیں دیا جا سکتا، ہر معاہدے میں ’’ساورن گارنٹی‘‘ دی ہے، بتایا گیا ہے بجلی دس روپے فی یونٹ تک سستی ہو سکتی ہے لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا، عوام کو بجلی کے بلوں میں فوری طور پر پینتیس روپے ریلیف دیا جا سکتا، یہ عذاب ٹیلی ویژن فیس کے نام پر مسلط کیا گیا تھا، مسجد کے بل سے لے کر قبرستان میں دیئے گئے بجلی کے کنکشن کے بل تک زندہ مردہ سب یہ بل دیتے ہیں، پینتیس روپے کوئی بڑی رقم نہیں ہے، اس سے غریب آدمی ایک مرلہ زمین تو نہیں خرید سکتا لیکن سردرد کی گولی کا ایک پتہ ضرور خرید سکتا ہے، سر درد کی تین سو پینسٹھ اقسام میں ہر آنے والا دن ایک نیا سر درد لے کر طلوع ہوتا ہے، بڑا سر درد بجلی کے بل ہی ہیں، یہ درد وکٹری سٹینڈ پر پہلے نمبر پر کھڑا ہے، اس کی شدت درد زہ سے کم نہیں جو خواتین کو بہت زیادہ بھی ہو تو نو ماہ میں ایک مرتبہ ہوتا ہے، مردوں کو یہ درد ہر ماہ برداشت کرنا پڑتا ہے، خواتین کو تو یہ سوچ کر تسلی ہو جاتی ہے کہ ان کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے، مردوں کے لئے تو ایسا بھی کوئی آسرا نہیں، اعمال تو لے جائیں گے سزا و جزا کا فیصلہ اسی پر ہو گا۔ کیپسٹی چارجز کے نام پر 1994ء سے لے کر امسال تک کئی ہزار ارب ڈالر لٹا دیئے گئے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس رقم سے پانچ بڑے ڈیم بن سکتے تھے، کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں میں یہ کھال اتار شرائط شامل کرنے والوں کا حساب اس ملک میں ہو سکے گا یا نہیں اس بارے میں کوئی بات کرنے یا کوئی جواب دینے کیلئے تیار نظر نہیں آتا، کیا اس کے لئے روز محشر کا انتظار کرنا ہو گا، پکوڑوں اور سموسوں پر سوموٹو خوب لئے گئے، شہ رگ سے لہو نچوڑا جاتا رہا، کسی کو توفیق نہ ہوئی کوئی اس کا بھی نوٹس لیتا۔
سرکاری انتظام میں چلنے والے آئی پی پیز کو تو بہ یک جنبش قلم بند کیا جا سکتا ہے، اس راہ میں رکاوٹ بھی کوئی نہیں پھر نیک کام کا آغاز اس سے کیوں نہیں کیا گیا، سرکاری آئی پی پیز اگر فوراً بند کر دیئے جائیں تو بجلی کی قیمت مزید ایک روپیہ فی یونٹ کم ہو سکتی ہے۔
کل آئی پی پیز کی تعداد ایک سو پانچ کے قریب ہے، ان میں سے نصف بھی بند ہو جائیں تو باقی پراجیکٹس کے پاس ہماری گرمیوں میں درکار بجلی کی ضرورتیں پوری کرنے کے باوجود مزید پچیس فیصد بجلی سرپلس رہتی ہے، لہٰذا جن علاقوں میں آج بجلی نہیں ہے انہیں بجلی مہیا کر کے اندھیر نگریوں کو روشن کیا جا سکتا ہے۔
1973ء میں پاکستان کو نیا آئین ملا پھر اس کی منظوری کے ساتھ ہی اس میں ترامیم کا سلسلہ شروع ہو گیا، ترامیم نے اصل آئین کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے، زیادہ ترامیم، حکومت پر گرفت مضبوط کرنے کے لئے اپوزیشن کو بے دست و پا کرنے کے لئے کی گئیں، آج وقت کی اہم ضرورت ہے ایک ترمیم اہل وطن کے لئے کر لی جائے، نظام بدل سکتا ہے، پارلیمانی نظام کے بجائے صدارتی نظام، قانونی ہارس ٹریڈنگ کی ضرورت نہیں رہے گی، شیر یا شیر شاہ سوری یہ حوصلہ کرینگے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.