فلاپ انقلاب، ایک اور دھمکی، آئینی ترامیم

58

9 درویش ایک جگہ مل بیٹھے اور ملکی سیاسی صورتحال پر بحث کرنے لگے، متعدد سوالات، زیر بحث آئے، ایک نے پوچھا۔ ’’کیا 4 اکتوبر کی رات 12 بجے پی ٹی آئی کو حقیقی آزادی مل گئی۔‘‘ جواب ملا پورا انقلاب ہی فلاپ ہو گیا۔ آٹھویں درویش نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے کہا معاملہ حقیقی آزادی کا نہیں، مفادات کی جنگ ہے گیم خطرناک ہے۔ اسلام آباد میں ایک دن بعد شنگھائی تعاون تنظیم کی اہم ترین کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ جس میں 5 میں سے 4 ایٹمی طاقتوں کے نمائندے اور عالمی میڈیا کے وفود شریک ہوں گے بھارتی وزیر خارجہ بھی بہت کچھ دیکھنے کے لیے کشاں کشاں پاکستان پہنچیں گے۔ چینی وزیر اعظم بھی کانفرنس میں شریک ہوں گے۔ بد قسمتی اس موقع پر پی ٹی آئی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے 15 اکتوبر کو (اسی دن کانفرنس ہو گی) ڈی چوک میں دھرنے کی کال دے دی۔ مقصد جیل میں خان تک رسائی اور افراتفری پیدا کر کے کانفرنس کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی آئینی ترامیم کا راستہ روکنا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی کو سوچنا چاہیے کہ سب کچھ خان نہیں ہیں ملک ہو گا تو خان ہوں گے۔ عمرانداروں کا کہنا ہے کہ آئینی ترامیم ہو گئیں تو خان نہیں بچیں گے۔ عقل و شعور سے نا بلد یہ نہیں سمجھتے کہ ترامیم منظور نہ ہوئیں تو بھی خان نہیں بچیں گے۔ مارشل لا رگڑا لگائے گا۔ آٹھویں درویش نے کہا کہ حقیقی آزادی کے لیے ہر دوسرے چوتھے دن کالیں دینے اور 107 سرکاری گاڑیوں میں جتھے بھر کر اسلام آباد پر ہلہ بولنے والے خیبر پختون خوا کے عوام کو دہشتگردوں سے آزادی کیوں نہیں دلا رہے۔ ایک ذہنی مریض نے پورے ملک کو مفلوج کر رکھا ہے۔ بد قسمتی سے ہم عمران خان اور چاہت فتح علی کے دور میں جی رہے ہیں۔ اس پر غور کیجئے چین جب بھی پاکستان کے لیے کچھ کرنے لگتا ہے ایک پارٹی کی بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ مطلقہ بیوی کے بھائی میں کیا خصوصیت ہے کہ خان دل و جان سے اس کی حمایت کر رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ نے سیاسی حل مسترد کر کے قومی سطح پر جو بربادی پھیلائی ہے۔ اس کے بعد انہیں اقتدار نہ ملنے کا یقین ہو چلا ہے اسی لیے وہ اب اداروں کی تباہی چاہتے ہیں۔ ’’اپنی خرابیوں کا ہے مختصر فسانہ، اقوال جارحانہ اعمال احمقانہ‘‘ 4 اکتوبر کو انہوں نے علی امین گنڈا پور کے ذریعہ کے پی سے نان سٹیٹ ایکٹرز پر مشتمل جتھے لا کر دارالحکومت پر چڑھائی کی جس کا واحد مقصد ریاست کی رٹ ختم کر کے فرد واحد کی رٹ قائم کرنا تھا مگر یہ ہو نہ سکا، گنڈا پور کی پر اسرار حرکتوں نے خان کے پلان پر پانی پھیر دیا۔ خفیہ ڈیل، سکرپٹڈ ڈرامہ یا حماقت کہ عین اس وقت کمند ٹوٹی ’’دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا‘‘ گنڈا پور لشکر کو بے یار و مددگار چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ کے پی ہائوس میں گھسے مبینہ طور پر سندیسہ جائے خانے میں رات گزاری، جہاں ان کا سافٹ ویئر ہی نہیں ہارڈ ویئر بھی اپ ڈیٹ کر دیا گیا جس کے بعد وہ پشاور روانہ ہو گئے۔ ڈی چوک میں دھرنے کا نعرہ لگا کر چلے تھے۔ جناح ایونیو پر سرنڈر کر کے غائب ہو گئے۔ نیازی روایات برقرار رہیں۔ ’’غلطیوں سے مسلح لشکر جرار‘‘ نے لائنوں میں کھڑے ہو کر گرفتاریاں پیش کیں۔ 870 لشکری پکڑے گئے جن میں 180 افغان باشندے تھے۔ پشاور پولیس کے اہلکاروں سے آنسو گیس کے شیل برآمد ہوئے 38 سرکاری گاڑیاں ضبط کر لی گئیں۔ گرفتار لشکری اپنے مفرور ’’سپہ سالار‘‘ کو برا بھلا کہتے رہے کہ دو ہزار روپے دیہاڑی پر ساتھ لایا تھا پولیس کے چھتر کھانے کے لیے چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ پشاور کیسے پہنچے ابن صفی مرحوم کی پراسرار کہانی، رات کی تاریکی، خالی جیب کوہ پیمائی، پیدل مارچ، گاڑی کی ڈگی بس، بس کی چھت، بارہ اضلاع کا پیدل سفر اور نعوذباللہ غار حرا سے تشبیہ، پاکستان کی قسمت میں کیسے کیسے نمونے لکھے ہیں۔ ساتویں درویش نے بات آگے بڑھائی کہا لگتا ہے پاکستان پر کسی آسیب کا سایہ ہے۔ گنڈا پور نے کس کس کو بے وقوف بنایا؟ چھٹے درویش نے ترت جواب دیا خان سمیت کے پی اسمبلی کے سارے اپنے اراکین بھرے میں آ گئے۔ گنڈا پور کی فلم فلاپ ہو گئی۔ کے پی کا ٹارزن یا خان کا ’’روحانی سپوت‘‘ جنگلوں پہاڑوں دریائوں اور غاروں میں چھپتا 12 اضلاع کی خاک چھانتا 30 گھنٹوں بعد پشاور پہنچ گیا۔ خان انہیں ’’زندہ پیر‘‘ ڈکلیئر کر دیں۔ ایک درویش نے پوچھا ’’حکومت دھرنا روکنے میں کامیاب ہوئی یا نہیں‘‘ پاس بیٹھے سیانے نے جواب دیا حکومت ہر بار چار ہزار کنٹینر لگا کر دھرنے کی کوشش ناکام بنا دیتی ہے۔ اس کے پاس کوئی اور فارمولا نہیں ہے حالانکہ ایک عالی دماغ صحافی جاوید چودھری سے رابطہ کر لے تو وہ اسے زبردست فارمولے سے بتا سکتے ہیں۔ ان کے مطابق 25 سال پہلے برطانوی پولیس نے دھرنے کی ارد گرد کی سڑکوں پر عجیب قسم کا سپرے کر دیا تھا۔ گاڑیاں پھسلیں دھرنا دینے والے پھسل کر زخمی ہوئے اور فرار ہو گئے۔ ایک گھنٹے بعد سڑکوں کو ایک اور سپرے کے ذریعے صاف کر دیا گیا۔ 4 اکتوبر کے بعد کنٹینر ہٹائے گئے 15 اکتوبر کے لیے پھر لگا دئیے جائیں گے۔ خان جیل میں رہتے ہوئے بھی حکومت کے ساتھ شرارتوں سے باز نہیں آتے۔ پتا نہیں حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ جنگ کو طول دینا کیوں چاہتی ہے۔ ایک درویش کے سوال پر کئی آوازیں ایک ساتھ ابھریں، آخر میں بیٹھے ماہر آئین و قانون نے بلند آواز میں کہا کہ آئینی ترامیم اسی لیے لائی جا رہی ہیں۔ سہولت کاروں کے ایکٹو ازم کا خاتمہ ہو گا اور حکومت اطمینان سے ملکی معیشت اور سیاسی استحکام کے لیے جدوجہد کر سکے گی لیکن اسے بھی بد قسمتی کہیے کہ آئینی ترامیم میں بھی اطراف سے کنٹینر کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ بلاول بھٹو، جے یو آئی اور دیگر جماعتوں نے اپنے اپنے مسودے پیش کر دئیے ہیں۔ حکومت 25 اکتوبر سے قبل وفاقی آئینی عدالت کا قیام چاہتی ہے لیکن بلاول اور مولانا فضل الرحمان کو کوئی جلدی نہیں۔ شنید ہے کہ کم از کم آئینی عدالت کے راستے کا کنٹینر ہٹ گیا لیکن 90 ہزار میں سے 317 وکلا رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کسی نے کہا آئینی عدالت کی کیا ضرورت ہے۔ آئینی بینچ بنا لیں۔ یعنی کنویں سے ڈھائی سو بالٹیاں نکالنے کا پرانا فارمولا جس کے گرنے سے کنواں ناپاک ہوا وہ تہہ میں موجود رہے گا۔ کہیں سے آواز آئی ترامیم پر عوام کو آن بورڈ لیا جائے ایک درویش نے غصہ سے جواب دیا۔ عوام کے 336 منتخب نمائندے کیا جھک مارنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ اچھی ترامیم ہیں نیک نیتی سے کی جائیں تو جہاں فرد واحد کے لیے دل و جان سے سہولت کاری کر کے سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کو طول دینے کی کوشش اور سازشوں کا خاتمہ کیا جا سکے گا وہیں عوام کے زیر التوا 60 ہزار سے زائد مقدمات نمٹانے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ لائق فائق ججوں کو اپنے جج کہہ کر متنازع بنانے کا رجحان ختم ہو گا۔ 9 درویشوں کی متفقہ رائے کہ 4 اکتوبر کی طرح 15 اکتوبر کا دھرنا بھی ناکام ہو گا۔ ہمارے جوان مستعد اور الرٹ ہیں۔ کانفرنس کے بعد آئینی ترامیم منظور ہوں گی خان سے 21 اکتوبر کے بعد ہی ملاقاتیں ہو سکیں گی۔

تبصرے بند ہیں.