یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت ہمارے حکمرانوں کی سوچ آمرانہ ہی رہی ہے، ہم نے آئین و قانون اور قومی اداروںکو بھی تماشا بنائے رکھا،دنیا بھر میں نظام ہائے ریاست سے فرسودہ اور ازکار رفتہ عناصر کی چھان پھٹک کر کے نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جاتا ہے مگر ہم عشروں نہیں صدیوں پرانے آزمودہ نظام کو سرے سے ہی ختم کر ڈالتے ہیں اگر وہ حکمرانوں کے مفادات کے تابع نہ ہو،ہر حکمران عوام کو ریلیف دینے کی آڑ میں عوام کا استحصال کرنے کے بہانے ڈھونڈتا ہے،اسی غلامانہ سوچ کا نتیجہ ہے کہ صدیوں سے اچھے نتائج دینے والے اور گڈ گورننس کے ذمہ دار کمشنری نظام کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا گیا،نتیجے میں آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کا نظام نافذ ہوا جس کی آج تک عوام کو سمجھ نہیںآئی ، کمشنری نظام صدیوں سے عوام اور حکومت کے درمیان پل،عوام کے مسائل نچلی سطح پر حل کرنے کیساتھ حکومتی رٹ بھی قائم رکھے ہوئے تھا،آج بھی دولت مشترکہ کے اکثر ممالک میں یہ نظام کامیابی سے ملک اورعوام کی خدمت میں مصروف ہے،مگر پولیس،پرویز مشرف اور خود ڈی ایم جی افسروں کی اکثریت کے رویے اور کاموں نے اس نظام کا ستیا ناس کر دیا۔ پولیس نے آزاداور خود مختار پوزیشن حاصل کرنے کیلئے کمشنری نظام کیخلاف سازش کے تانے بانے بنے،سب سے پہلے اس نظام پر حملہ منتخب حکومت کے دور میں کیا گیا جب عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ کرنے کے جنون میں مجسٹریسی نظام کے خاتمہ کی بات کی گئی ،یوں عوام کو نچلی سطح پر ملنے والے فوری انصاف کے دروازے بند کر دئیے گئے،عوام کو لوٹنے والے مافیاز کو کھلی چھٹی مل گئی،ان کی نگرانی کیلئے پولیس ڈیپارٹمنٹ رہ گیا یا متعلقہ ادارے اور ان کا جو رویہ اور کردار ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ،اور یہی پولیس چاہتی تھی کہ انتظامی مجسٹریٹس سے ان کوالگ کر کے کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے۔
مشرف دور میں پولیس افسروں کی ایک مؤثر تعداد وزارت داخلہ میں تعینات تھی، وہ پولیس کو ایک با اختیار اور جواب دہی سے بالاتر ادارہ دیکھنا چاہتے تھے، یوں ایک کمزور سے پبلک سیفٹی کمیشن اور آئی جی کو بہ یک وقت پبلک سروس کمیشن، کمانڈر آف دی فورس اور بجٹ کے معاملے میں ہوم ڈیپارٹمنٹ کی نگرانی سے آزاد ادارہ دیکھنا چاہتے تھے، یوں نئے پولیس آرڈر کوتشکیل دیا گیا ، پولیس میں موجودہ بگاڑ کا ایک سبب یہ پولیس آرڈر بھی ہے جس میں اختیارات کو ایک ہی ادارے اور پوسٹ یعنی آئی جی کے دفتر میں جمع کر دیا گیا ہے اور اس پر چیک رکھنے والے ہوم ڈیپارٹمنٹ کے اختیار محدود کر دیئے گئے۔
پرویز مشرف دور میں ،ان کے سیکرٹریٹ میں کوئی ڈی ایم جی افسر کسی کلیدی عہدے پر نہیں تھا ہوا،یہ پرویز مشرف کی ذاتی مخاصمت تھی اور وہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے حمایتی یاان کی حکومتوں کیساتھ کام کرنے والے افسروں کی بجائے اپنی سیاسی فورس کو مضبوط بنیاد دیکر آگے لانا چاہتے تھے، اسی طرح ’’کج شہر دے لوگ وی ظالم سن کج سانوں مرن دا شوق وی سی ‘‘ڈی ایم جی افسران اور ڈپٹی کمشنرز کا سخت رویہ بھی اس صورتحال کی ایک وجہ ہے، اسی طرح خود کو میرٹ اور قانون ضابطوں پر چلنے والے دعویدار ان افسروں بارے یہ گمان غالب تھا کہ یہ لوگ بلدیاتی اداروں کے سربراہ یا ایڈمنسٹریٹر بن کر فنڈزاپنے دفاتر،گاڑیوں اور گھروں میں استعمال کرتے تھے،یوں پرویز مشرف دور میں کمشنری نظام کا سرے سے ہی خاتمہ کر دیا گیا اوراس کی جگہ ڈی سی او(ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن افسر)کا عہدہ اور ضلعی نظام متعارف کرایا گیا ،اگر چہ بعض حوالوں سے اس نظام میں کچھ خوبیاں بھی تھیں اوراسے اختیارات نچلی سطح پر منتقل کرنے کا ابتدائیہ بھی کہا جا سکتا ہے مگر اس نظام میں بگاڑ کااحتمال بہت زیادہ تھا،احتساب نام کا کوئی جانور اس نظام میں دکھائی نہیں دیتا تھا،جو جس سیٹ پر ہے وہ اس کی ریاست تھی،ہاں مگر حکومت کے قریبی لوگوں کو اس نظام میں اہمیت حاصل تھی، دانیال عزیز بھی ایک ڈپٹی کمشنر کے ڈسے ہوئے تھے ،وہ این جی او مافیا کے پروردہ تھے، نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کے چیئرمین جنرل(ر) تنویر نقوی، رحیم یار خان (پنجاب ) کے کسی ڈپٹی کمشنر سے بہت ناراض تھے،وہ اپنی بنجر زمینوں کو زرخیز بنانے کے لئے ہر قسم کا حربہ آزما رہے تھے مگر ڈی ایم جی افسران اور سسٹم ان کے راستے کی رکاوٹ بنا رہا سو وہ اس اس سسٹم کو برباد کرنے پر اترے ہوئے تھے۔
اب پنجاب میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بحال تو کر دیا گیا ہے مگر یہ لولا لنگڑا ہے ، لوگوں کو اس دفتر سے وہی توقعات ہیں جو اس کے خاتمے سے پہلے ہوتی تھیں مگر اب اس کے پاس مال پٹوار کے علاوہ کیا بچا ہے ،اسے عارضی اختیارات دے کر چلایا جا رہا ہے ،ضرورت ہے کہ اس کے لئے مناسب قانون سازی کی جائے تاکہ اسے انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ہی نہ استعمال کیا جائے۔
کہا جاتا ہے پنجاب حکومت نے انتخابات کو ہائی جیک کرنے کے لئے نو آبادیاتی دور کی یادگار کو بحال کیا ، حکومت نے پہلے تو بلدیاتی اداروںکے انتخابات کے انعقاد میں لیت ولعل سے کام لیا اور جب عدالتی احکامات کی بنا پر ان کا انعقاد ناگزیر ہوگیا تو بادل نخواستہ انتخابات کرادیئے ، مگر ساتھ ہی ایسی قانون سازی کی گئی جس سے مقامی حکومتیں بے جان، بے روح اور بے اختیار ہوگئیں،ماضی میں بھٹو نے ڈپٹی کمشنرز کے کرائے ہوئے انتخابات سے دو تہائی اکثریت حاصل کی اور بالآخر ملک کو مارشل لاء کے حوالے کر گئے، اس سے قبل صدر ایوب خان نے یہی حربہ استعمال کر کے محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی الیکشن میں ہرایا تھا،ذوالفقار علی بھٹو نے تو مارچ1977 ء کے الیکشن کے لئے پارٹی امیدواروں کی فہرستیں بھی ڈپٹی کمشنروں سے بنوائی تھیں اور انہی کی رائے کو مقدم جانتے ہوئے پیپلز پارٹی کے ان امیدواروں کو ٹکٹ دلائے تھے جو اپنے علاقے میں کامیاب ہونے کی اہلیت رکھتے تھے۔
ڈپٹی کمشنر / ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے خاتمے سے نقصان یہ ہوا کہ حکومت عوام سے کٹ گئی، عوام کے غصے اور احتجاج، علاقے میں مختلف گروپوں کی کارروائی ہر بات کا علم اسسٹنٹ کمشنر کے ذریعے ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور ہوم سیکرٹری کو ہوتا تھا، وہ چیف سیکرٹری کے ساتھ مشاورت سے چیف منسٹر کو حقیقت پر مبنی رپورٹ پیش کیا کرتا تھا،اب معاملہ یہ ہے کہ اگر کہیں احتجاج ہو تو اس کا براہ راست سامنا ادھر ادھر سے جمع کی ہوئی پولیس فورس سے ہوتا ہے جو نہ تو احتجاج کرنے والوں کی نفسیات سے نہ ان کے لیڈر صاحبان سے واقف ہوتی ہے۔ حکومتی رٹ کاقیام،عوام کی دادرسی اور حکومت اور عوام میں رابطہ کاری کے کام آسان نہ تھے،یہ انتہائی اہم فریضے تھے جن سے انتظامی افسر ہی نبٹ سکتے ہیں،تاہم اگر اس نظام میں کچھ خامیاںتھیں بھی توان کو دور کر کے اسے مزید سود مند بنایا جا سکتا تھا نہ کہ اس نظام کو سرے سے ہی ختم کر دیا جاتا اور اب چوں چوں کا ایک مربہ نظام عوا م پر مسلط ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.